’زہر دے دو اب یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی‘: دو بہنوں کا اکلوتا بھائی جس کے اعضا عطیہ کرنے کا مشکل فیصلہ سات افراد کی صحت کا سبب بنا

عزیر بن یاسین کے مختلف جسمانی اعضا عطیہ کرنے سے سات لوگوں کو نئی زندگی مل گئی جو پاکستان میں میڈیکل سائنس میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ان تمام افراد کی حالت اب بہت بہتر ہے اور وہ تیزی سے صحت مند ہو رہے ہیں۔ سات افراد کی صحت مند زندگی کی وجہ بننے والے عزیر بن یاسین کون تھے اور ان کے گھر والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

راولپنڈی کے ایک ہسپتال میں عزیر بن یاسین کو وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ ہسپتال میں وہ لازمی ٹیسٹ بھی اپنے اپنے وقت پر ہو رہے تھے، جن میں یہ حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ دماغ مردہ ہو چکا ہے اور اب صرف وینٹی لیٹر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عزیر کی دونوں بہنیں ڈاکٹر ہیں۔ انھیں معلوم تھا کہ کیا ہو چکا ہے مگر دونوں ہی حقیقت تسلیم کرنے سے انکاری تھیں۔ ایسے میں ڈاکٹروں کی جانب سے اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے ان کی کونسلنگ کی جانے لگی۔

عزیر کی چھوٹی بہن ڈاکٹر سیما کے مطابق ’بس ایک امید تھی، ہمیں اعضا عطیہ کرنے پر کونسلنگ کی ضرورت نہیں تھی مگر موت کو قبول کرنا مشکل ہو رہا تھا۔‘

تاہم دونوں بہنوں نے ہمت کر کے اپنی والدہ اور عزیر کی اہلیہ فائزہ حسین کو اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے قائل کرنے کی کوشش کی۔

’ماں نے بھی کہہ دیا کہ یہ بھابھی کا حق ہے وہ خود یہ فیصلہ کریں گی۔ بھابھی شروع میں تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ یکے بعد دیگرے ایسے واقعات ہوئے کہ بھابھی نے بھی اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دے دی۔‘

یوں عزیر بن یاسین کے مختلف جسمانی اعضا عطیہ کرنے سے سات لوگوں کو نئی زندگی مل گئی جو پاکستان کی میڈیکل سائنس میں ایک تاریخی واقعہ ہے۔

انتمام افراد کی حالت اب بہت بہتر ہے اور وہ تیزی سے صحت مند ہو رہے ہیں۔ ان میں ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والا ایک سات سالہ بچہ ہمدان خان بھی شامل ہے۔

ہمدان خان میں عزیر بن یاسین سے حاصل کردہ جگر کے ایک ٹکڑے کی پیوند کاری کی گئی ہے۔ ان کے والد لوہب خان کہتے ہیں کہ ہمارا پورا خاندان سات سالہ بیٹے ہمدان خان کے لیے جگر عطیہ کرنے والے عزیر بن یاسین کے لیے نوافل پڑھ کر دعا کرتا ہے۔

’ہمدان خان اس وقت آئی سی یو میں ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ بہتر ہیں۔ دعا کریں کہ میرا بیٹا ٹھیک ہو جائے اور ہمیں سکون مل سکے۔‘

عضو حاصل کرنے والے دوسرے مریض حسنین احمد ہیں جن میں لبلبے کی پیوند کاری کی گئی ہے۔ حسنین احمد شوگر کے ایسی سٹیج کے مریض بن چکے تھے، جس میں اس کا علاج لبلبے کا ٹرانسپلانٹ ہی سے ممکن تھا۔

حسنین احمد کے والد محمد حفیظ کہتے ہیں کہ ’شوگر نے جوان بیٹے کو ناکارہ کر دیا تھا۔ اب وہ بہتر ہے اور ٹرانسپلانٹ کے بعد جو شوگر کے ٹیسٹ ہوئے ہیں ان میں اس کی شوگر نارمل ہے۔‘

اسی طرح عزیر کا ایک گردہ زینب امتیاز جبکہ دوسرا گردہ راجہ علی ریاض کو لگا ہے۔

زینب امتیاز کہتی ہیں کہ ’میں ڈائیلیسِز پر تھی۔ ٹرانسپلانٹ سے پہلے بس ایک ہی کام ہوتا تھا کہ کب ہسپتال جانا ہے اور کب ڈائیلیسز کروانا ہے۔

’میں اس وقت بہت بہتر محسوس کر رہی ہوں، امید ہے کہ اب معمول کی زندگی شروع ہو سکے گی۔‘ اس کے علاوہ عزیر کی دونوں آنکھیں بھی عطیہ کر دی گئی ہیں۔

سات افراد کی صحت مند زندگی کی وجہ بننے والے عزیر بن یاسین کون تھے اور ان کے گھر والوں کو یہ فیصلہ کرنے میں کتنی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

عزیر بن یاسین کون تھے؟

عزیر بن یاسین کے تایا زاد بھائی فیصل رفیق بتاتے ہیں کہ عزیر راولپنڈی کے علاقے صدر میں بینک روڈ پر اپنے والد کی وفات کے بعد دکان چلا رہے تھے۔ ان کا آبائی تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع باغ سے تھا۔

عزیر بن یاسین دو ڈاکٹر بہنوں ڈاکٹر سیما اور ڈاکٹر صدف کے اکلوتے اور بڑے بھائی تھے۔ ان کے سوگواروں میں بیوہ فائزہ حسین اور بیٹی عروہ عزیر بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ ’اکثر میری اور چھوٹی بہن کی ان سے لڑائی ہوتی تھی مگر یہ لڑائی زیادہ وقت نہیں چلتی تھی کیونکہ ہمیشہ عزیر ہی آگے بڑھ کر ہم سے معذرت کر کے بات ختم کر دیتے تھے۔

’صبح اگر ناشتے کے وقت لڑائی ہوتی تو میں اس امید کے ساتھ کالج چلی جاتی تھی کہ اب معذرت کا پیغام آ جائے گا اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔‘

عزیر کی بیوہ فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ عزیر چپکے سے لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ وہ اکثر شام کو اپنی پسندیدہ فروٹ چاٹ لاتے تھے۔

’کچھ دن پہلے ہی ان کے پاس فروٹ چاٹ کے دو لفافے تھے، میں نے کہا کہ یہ آپ کے پاس کیوں ہیں تو وہ بتانے لگے کہ وہ کسی غریب خاتون نے فروٹ چاٹ کا ٹھیلا لگایا ہوا تھا۔ میں نے سوچا کہ چلو ان سے فروٹ چاٹ خرید لیتا ہوں۔ ان کی بھی مدد ہو جائے گی۔‘

فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’اکثر گلی سڑی سبزیاں لے آتے تھے۔ جس پر میں کہتی کہ یہ کیا ہے تو بس اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے تھے یہ سمجھ میں آ رہا ہوتا تھا کہ وہ کسی غریب ریڑھی والے کا مال ختم کرنے اور اس کو فائدہ دینے کے لیے یہ سبزی خرید لیتے تھے کہ چلو استعمال کی یا نہ کی اس کا فائدہ تو ہو جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ عزیر کسی کو کسی طرح فائدہ پہنچاتے اور مدد کرتے تھے، جس کا اندازہ فائدہ پہنچنے والے کو بھی کم ہی ہوتا تھا۔

’فیصلہ کرنا آسان نہیں تھا‘

فائزہ حسین بتاتی ہیں کہ ’عزیر بالکل صحت مند تھے، بس کبھی کبھار سر میں درد کی شکایت کرتے تھے۔‘

فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’جس صبح وہ بیمار ہوئے اس رات یہ آدھے سر کے درد کی شکایت کر رہے تھے اور کچھ دوائیاں وغیرہ لے کر سو گئے تھے۔

’صبح جب میں ناشتہ بنا رہی تھی تو اس وقت عجیب سی حالت میں کہا کہ پانی دو میں نے پانی دیا اور پھر فوری طور پر اپنے قریبی رشتہ داروں کو مطلع کیا کہ ان کی طبعیت خراب ہے۔‘

ان کے مطابق ہسپتال تک پہنچتے پہنچتے شاہد وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔

فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’وہاں پر پہلے ڈاکٹروں نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے مگر وہ سی ٹی سکین وغیرہ کر رہے تھے جس پر میں نے ان کی بہن ڈاکٹر سیما کو اس کی اطلاع کر دی۔‘

ڈاکٹر سیما بتاتی ہیں کہ وہ برطانیہ میں ایمرجنسی ڈاکٹر کی خدمات انجام دیتی ہیں۔ ان کے مطابق ’پہلے جب مجھے اطلاع ملی کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور سی ٹی سکین وغیرہ ہو رہا ہے۔ اکثر اوقات سی ٹی سکین صاف ہوتے ہیں۔

’میں نے بھی سوچا کہ سی ٹی سکین صاف ہو گا مگر جب کچھ دیر بعد میں نے سی ٹی سکین دیکھا تو دماغ میں کچھ موجود تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمیں جو رپورٹس مل رہی تھیں ان سے پتا چل رہا تھا کہ دماغ مردہ ہو چکا ہے۔ میں یہ دیکھ کر بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس موقع پر میرے میاں مجھے سمجھا رہے تھے کہ مجھے یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے۔‘

ڈاکٹر سیما کہتی ہیں کہ ہم نے برطانیہ میں دیکھا تھا کہ ایسے کیسز جن میں دماغ مردہ ہو جاتا ہے وہاں پر اکثر اوقات خاندان اپنے اعضا عطیہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح کچھ لوگوں کو نئی زندگی مل جاتی ہے۔

ڈاکٹر سیما کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری بہن تو بھائی کے اعضا عطیہ کرنے کو تیار تھے مگر یہ فیصلہ بھابھی اور ماں کو کرنا تھا۔ ماں نے بھی کہہ دیا کہ یہ بھابھی کا حق ہے وہ خود یہ فیصلہ کریں گی۔

’بھابھی شروع میں تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔‘

’سات نئی زندگیوں کے لیے فیصلہ کیا‘

فائزہ کہتی ہیں کہ ’میں تو عزیر کی موت کو تسلیم نہیں کر رہی تھی مگر عزیر کی ڈاکٹر بہنوں نے بھی دبے دبے الفاظ میں کہنا شروع کیا کہ اگر ہم اعضا کو عطیہ کر دیں گے تو کئی لوگوں کی نئی زندگیاں ملنا شروع ہو جائیں گئیں۔‘

فائزہ حسین کہتی ہیں کہ ’میرا چھوٹا بھائی بھی ڈاکٹر ہے، اس نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ اعضا عطیہ کر دینے چاہییں۔ اس کے لیے میں نے مذہبی رہنماؤں سے بات کی جنھوں نے کہا کہ ہم ایسا کر سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مجھے کچھ عرصہ قبل ہمارے قریب ہی کرایہ پر رہائش پذیر ایک خاندان یاد آیا، جس کی ایک کم عمر بچی کا ڈائیلسز ہوتا تھا۔ اس بچی کی والدہ ہمارے گھر آتی تھیں۔ وہ جس کرب اور تکلیف سے گزرتی تھیں، مجھے وہ سب کچھ یاد آ رہا تھا۔ اس کے ساتھ جب میں ہسپتال گئی تو وہاں پر راجہ علی ریاض کی والدہ بھی ملی تھیں۔

فائزہ حسین کا کہنا تھا کہ ’راجہ علی ریاض کی والدہ میری ساس کو ملیں اور ان سے مل کر رونے لگیں کہ میرا جوان بیٹا کہہ رہا ہے کہ مجھے زہر دے دو اب یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔ اس کا گروپ او پازیٹو ہے اور کوئی او پازیٹو خون سے میچ کرنے والا عطیہ نہیں مل رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’میں نے یہ دیکھا تو فیصلہ کیا کہ عزیر تو اب اس دنیا میں نہیں رہے اس سے پہلے کہ ان کا وینٹی لیٹر بھی اتر جائے ان کے اعضا سے لوگوں کو نئی زندگی دیتے ہیں اس سے بڑا تحفہ عزیر کے لیے کوئی نہیں ہو سکتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر خود عزیر کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا تو وہ بھی یہ ہی فیصلہ کرتے۔ بس اس فیصلے کے بعد کچھ دیر تک سوچا کہ یہ سبز آنکھیں عطیہ نہیں کرتی ہوں۔ یہ ان پر بہت پیاری لگتی تھیں۔ میری اور بیٹی کی پسندیدہ تھیں۔

’مگر پھر یہ بھی فیصلہ کر لیا کہ یہ سبز آنکھیں دو لوگوں کی بینائی لوٹا دیں گی تو اس سے اچھا اس کا کوئی اور استعمال نہیں ہو سکتا۔‘

’18 گھنٹے تک مسلسل کام کرتے رہے‘

راولپنڈی میں ایک ہسپتال کے منتظم منور حسین بتاتے ہیں کہ جب لواحقین نے حتمی فیصلہ کیا کہ جسمانی اعضا عطیہ کرنے ہیں تو اس کے بعد ہم نے اپنا کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلا کام عزیر کو دوسرے ہسپتال سے محفوظ انداز میں اپنے ہسپتال منتقل کرنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دوسرا کام یہ دیکھنا تھا کہ کون سے اعضا عطیہ ہو سکتے ہیں اس کے لیے اسلام آباد کی ایک ہسپتال سے ہنگامی بنیادوں پر مدد حاصل کی گئی، جب پتا چل گیا کہ عزیر کا جگر، آنکھیں اور گردے محفوظ انداز میں حاصل کر کے ٹرانسپلانٹ ہو سکتے ہیں تو اس کے بعد ماہرین کنسلٹنٹ کو ٹاسک دیا گیا کہ وہ اپنے آپریشن کی تیاری کریں۔

منور حسین کہتے ہیں کہ گردے کے ٹرانسپلانٹ کے ماہرین ہمارے ہسپتال میں موجود تھے اور یہ ٹرانسلانٹ ہمارے پاس ہی ہونا تھا۔ میجر جنرل ریٹائرڈ ارشد محمود اور ڈاکٹر نوید سرور نے اپنے کام کا آغاز کردیا تھا۔ آنکھوں کے لیے آنکھوں کے ایک ہسپتال سے ماہرین کو بلایا گیا جبکہ جگر اور لب لبے کے لیے متعلقہ شعبے کے ماہرین کو بلایا گیا تھا۔

ڈاکٹر فیصل ڈار جگر ٹرانسپلانٹ کے ماہر سرجن ہیں۔ عزیر بن یاسین کے جگر کے عطیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور لب لبا کا ٹرانسپلانٹ کرنے کے آپریشن کی نگرانی انھوں نے کی تھی۔

ڈاکٹر فیصل ڈار بتاتے ہیں کہ ’ہمیں دوپہر کے وقت راولپنڈی میں واقع ایک ہسپتال کی جانب سے اطلاع ملی کہ عطیہ کیا گیا جگر اور لب لبا حاصل کر لیں۔ سب سے پہلا کام تو یہ کیا گیا کہ اس کے لیے مستحق مریضوں کوتلاش کیا گیا۔ جس میں پہلی ترجیح جوان العمر تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میری ٹیم نے ضروری ساز و سامان کے ہمراہ جس میں جگر اور لب لبا کو محفوظ بھی رکھنا تھا اسلام آباد کا سفر شروع کر دیا تھا۔

’تقریباً چار گھنٹے میں ہم اسلام آباد پہنچے جہاں پر رات کے تقریباً نو بجے جگر حاصل کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا گیا تھا۔‘

ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں عزیر کے دونوں گردے، آنکھیں حاصل کرنے کا کام شروع تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کوئی نو بجے آپریشن شروع کیا اور یہ کوئی دو، اڑھائی گھنٹے کا تھا۔ اس کے بعد جگر اور لب لبا لے کر واپس لاہور کا سفر شروع کیا۔‘

ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ لاہور پہنچ کر میں اور میری ٹیم نے دوبارہ اپنا کام شروع کردیا تھا۔ ہسپتال میں عملہ مریضوں کو آپریشن کے لیے تیار کررہا تھا۔ ہم نے بھی پہنچتے ہی تمام تیاریاں شروع کردی تھیں۔ اس کے لیے تین آپریشن تھیڑ تیار کیے گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان تین آپریشن تھیڑز میں تین ماہر کسنلٹنٹ سرجن اور ان کے زیر تربیت ڈاکٹرز اور عملہ مصروف عمل تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’خوشی ناقابل بیان تھی‘

ڈاکٹر فیصل ڈار کہتے ہیں کہ جگر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اور لبلبے کا ٹرانسپلانٹ تو دنیا بھر میں ہوتے ہیں مگر پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا آپریشن ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ’میرے دیگر دو ساتھی کسنلٹنٹ جگر کا ٹرانسپلانٹ کر رہے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہر جگر کو دو حصوں میں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جگر صحت مند ہو۔ عزیر جوان العمر تھے، ان کا جگر صحت مند تھا اور یہ فیصلہ ضروری ٹیسٹ کرنے کے بعد کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھجگر انسانی جسم میں کمی بیشی پر خود بخود اپنی پرورش کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب کسی کا جگر حاصل کیا جائے تو کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے دو مریضوں کو فائدہ پہنچ جائے۔ اسی طرح شوگر کی ایسی سٹیج جہاں پر وہ بالکل ہی نا قابل علاج ہو جائے اس کا واحد حل لب لبے کی تبدیلی ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے برطانیہ سے تربیت حاصل کی تھی۔ وہاں پر میں نے ایسے آپریشن پہلے کیے تھے اس لیے ہمارے پاس یہ ٹرانسپلانٹ آپریشن کرنے کے لیے ضروری تجربہ موجود تھا۔

’مگر پاکستان میں اس کا موقع اس لیے نہیں ملا کہ یہاں بعد از مرگ اعضا عطیہ کرنے کا رحجان بہت ہی کم ہے۔ اب یہ موقع ملا تو اس میں سب نے کوشش کی کہ جتنے بھی مریضوں کو فائدہ پہنچ سکے فائدہ پہنچنا چاہیے۔‘

ڈاکٹر فیصل ڈار کا کہنا تھا کہ ’میں نے لب لبا اور میرے دو ساتھیوں نے جگر کا ٹرانسپلائنٹ مکمل کیا جو مشن ہم نے اتوار کی دوپہر شروع کیا تھا، وہ مسلسل کام کرتے ہوئے پیر کی صبح کوئی چھ سات بجے مکمل ہوا۔ تینوں مریضوں کی حالت تسلی بخش تھی، جس میں ایک سات سالہ بچہ بھی شامل ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.