کامیابی کا گُر محمد رضوان سے سیکھیے: سمیع چوہدری کا کالم

ٹی ٹونٹی کرکٹ میں کامیابی کے بارے مختلف اذہان مختلف تاثرات رکھتے ہیں۔ کوئی زیادہ تگڑی بلے بازی کو کامیابی کی دلیل مانتا ہے، کوئی پاور پلے کو جیت کی کلید قرار دیتا ہے تو کوئی ڈیتھ اوورز بولنگ میں ہی سارے وسائل جھونک کر فتح کھوجتا ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کے برعکس، فرنچائز کرکٹ میں مسابقتی الیون کی تشکیل بہت دشوار ہوا کرتا ہے کہ ملک کی نمائندگی کرنے والی الیون سال بھر ایک اکٹھ میں رہ کر نفسیاتی ہم آہنگی کے جن مراحل سے گزرتی ہے، فرنچائز ٹیموں کو وہ دستیاب نہیں ہوا کرتے۔

سو، فرنچائز کرکٹ میں کامیابی کا گُر سیکھنا ہو تو ملتان سلطانز سے سیکھیے۔ پورے سال بعد مہینہ بھر کے لیےگیارہ اجنبی چہروں کو اکٹھا کر کے کوئی وننگ کمبینیشن ترتیب دینا ہو تو محمد رضوان سے سیکھیے۔

یہ خاصی دلچسپ بات ہے کہ پہلے دو سیزنز تک وجود ہی نہ رکھنے والی ملتان سلطانز اب پی ایس ایل کی کامیاب ترین فرنچائز بن چکی ہے۔ نہ صرف یہ لیگ کی اپنی نمایاں ٹیم بن کر ابھری ہے بلکہ دیگر تمام فرنچائز کرکٹ کی بھی ان گنی چنی ٹیموں میں شمار ہوتی ہے جو کامیابی میں تسلسل رکھتی ہیں۔

اس قدر کامیابی کی بنیادی وجہ سلطانز کے وہ اجزائے ترکیبی ہیں جو ڈرافٹ کے وقت رو بہ عمل ہوتے ہیں۔ وہاں شہ سرخیوں سے لائم لائٹ چرانے کو بڑے ناموں کی بولیاں لگانے کی بجائے بہترین کمبینیشن کی کھوج میں مؤثر کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

اور پھر محمد رضوان کی قیادت میں بھی وہ طمانیت ہے کہ سلطانز کی فیلڈنگ میں بھلے کوئی بھونچال ہی کیوں نہ برپا ہو جائے، رضوان کے چہرے کی مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی۔ کندھا تھپتھپا کر وہ ناکام فیلڈر کی کاوش کی تحسین سے بھی نہیں کتراتے۔

شاید یہ اسی ٹھہراؤ کا ثمر ہے کہ فیلڈنگ میں گاہے بگاہے کوتاہیوں کے باوجود رضوان کے بولرز انھیں مایوس نہیں کرتے۔ حالیہ سیزن کے سرکردہ بولرز پہ نگاہ ڈالی جائے تو سپن اور پیس دونوں میں ہی سلطانز قیادت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ٹی ٹونٹی کرکٹ میں کامیابی کے بارے مختلف اذہان مختلف تاثرات رکھتے ہیں۔ کوئی زیادہ تگڑی بلے بازی کو کامیابی کی دلیل مانتا ہے، کوئی پاور پلے کو جیت کی کلید قرار دیتا ہے تو کوئی ڈیتھ اوورز بولنگ میں ہی سارے وسائل جھونک کر فتح کھوجتا ہے۔

محمد رضوان
Getty Images

مگر ٹیسٹ ہی کی طرح ٹی ٹونٹی کرکٹ میں بھی یہ مسلمہ اصول قابلِ عمل ہے کہ کامیاب وہی ٹھہرے گا جو گاہے بگاہے وکٹیں اڑاتا رہے گا، ساجھے داریاں توڑتا رہے گا اور حریف بیٹنگ کو مومینٹم سے دور رکھے گا۔

سلطانز اسی کلیے پہ عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ محمد علی اگرچہ کئی سالوں سے سرکٹ میں سرگرم رہے ہیں مگر حالیہ سیزن ان کی بہترین فارم کا عکاس ہے۔ بعینہٖ اسامہ میر بھی اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ میں متوقع کامیابی حاصل نہیں کر پائے مگر محمد رضوان کی قیادت میں وہ یکسر الگ بولر نظر آتے ہیں۔

سلطانز کے برعکس قلندرز اور کنگز ان پہلوؤں پہ ارتکاز میں ناکام رہے ہیں۔ اگرچہ سیزن کے اختتام کے قریب پہنچ کر قلندرز نے اپنی پے در پے ناکامیوں کا سلسلہ توڑا ہے مگر حالیہ سیزن کی ناقص کارکردگی میں بنیادی سبب بہتر بولنگ وسائل کی عدم دستیابی اور موجود وسائل کی ناقص فارم رہا ہے۔

کنگز کے لیے بھی اب یہ سیزن تقریباً تمام ہو چکا ہے۔ لیکن اگلے سیزن کے لیے چند بنیادی اسباق یہ حاصل ہوئے ہیں کہ بڑے ناموں پہ انحصار کے ہنگام بھی نو آموز کھلاڑیوں کا صحیح پوزیشنز پہ استعمال اہم ہوا کرتا ہے۔ بحیثیتِ مجموعی کنگز کا یہ سیزن ناقص پلاننگ نہیں بلکہ بری قسمت کا شکار رہا ہے کہ جب بولنگ یاوری کو آئی تو بیٹنگ لاچار ٹھہری اور جب کہیں بلے بازی موثر ہوئی تو بولنگ اپنی فارم کھو بیٹھی۔

یونائیٹڈ کی حالیہ کامیابیوں کی بدولت اب پلے آف کے چار نام تو لگ بھگ طے ہو ہی چکے ہیں مگر اس ٹاپ فور میں مسابقت کی دوڑ ابھی باقی ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بہت عرصے بعد اوائل سیزنز کی سی تاثیر میں دکھائی دے رہے ہیں اور وہ اس ٹرافی کے لئے ڈارک ہارس ثابت ہو سکتے ہیں۔

لیکن ٹرافی کی اس دوڑ میں ابھی تک سلطانز سب سے آگے ہیں اور اس کی کلید نہ صرف ملتان کی تباہ کن بولنگ بلکہ محمد رضوان کی بیٹنگ فارم بھی ہے۔ اگلے مرحلے میں جو بھی ٹیم محمد رضوان کو جلد آؤٹ کرنے کی سبیل کر پائی، وہ ٹرافی کے قریب تر ہو گی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.