الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلہ اور خیبرپختونخوا اسمبلی کی دلچسپ صورتحال: فیصلے سے تحریک انصاف کو کتنا نقصان پہنچا؟

الیکشن کمیشن کے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سُنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں درجنوں نشستوں سے محروم ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کا صدر پاکستان اور سینیٹ کے الیکشن پر کیا اثر ہو گا اور کیا تحریک انصاف خود بھی اس کی ذمہ دار ہے؟
PTI
Getty Images

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سُنی اتحاد کونسل قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں درجنوں نشستوں سے محروم ہو گئی ہے جس کے بعد یہ تمام نشتیں عام انتخابات میں جیتنے والی دیگر سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی گئی ہیں۔

اس فیصلے کے بعد سب سے دلچسپ صورتحال صوبہ خیبرپختونخوا میں پیدا ہوئی ہے، جہاں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے سُنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی تاکہ صوبے میں موجود 26 مخصوص نشستوں کا بڑا حصہ انھیں مل سکے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگرچہ 90 کامیاب ممبران صوبائی اسمبلی کے باوجود سُنی اتحاد کونسل کے ہاتھ تو کوئی نشست نہ آئی تاہم بہت سے دیگر ایسی سیاسی جماعتوں کی چاندی ہو گئی کیوںکہ ان کے حصے میں آنے والی مخصوص نشستوں کی تعداد اُن کی عام انتخابات میں جیتی ہوئی نشستوں سے بھی زیادہ ہیں۔

خیبرپختونخوا اسمبلی پر نظر ڈالی جائے تو یہاں صوبائی اسمبلی کے 109 حلقوں میں انتخابات کا انعقاد ہوا تھا جس میں سے 91 نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) 7 سیٹوں پر، مسلم لیگ ن 6 نشستوں پر، پاکستان پیپلز پارٹی چار نشستوں پر جبکہ پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹرین اور عوامی نیشنل پارٹی ایک، ایک نشست پر کامیاب ہوئی تھی۔

اگر سادہ الفاظ میں بات کی جائے تو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے خیبرپختونخوا میں 90 سیٹوں پر الیکشن جیتا تھا جبکہ دیگر جماعتوں نے مجموعی طور پر 19 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور چونکہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں سُنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں نہیں مل پائی اس لیے خیبرپختونخوا اسمبلی میں موجود تمام 26 مخصوص نشستیں ان تمام دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی گئی ہیں جنھوں نے عام انتخابات میں مجموعی طور پر محض 19 جنرل نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

اور اس صورتحال کا سب سے بڑا فائدہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کو ہوا۔ جے یو آئی (ف) کو صوبہ خیبرپختونخوا سے سات جنرل نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق انھیں 10 مخصوص نشستیں دی گئی ہیں جس کے بعد اس جماعت کی مجموعی سیٹوں کی تعداد 17 ہو گئی ہے۔

اگر بات کریں پاکستان مُسلم لیگ ن کی تو انھوں نے صوبہ خیبرپختونخوا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں 6 نشستیں جیتیں اور الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے مطابق انھیں اب آٹھ مخصوص نشستیں دے دی گئیں ہیں جس کے بعد ن لیگ کی مجموعی تعداد 14 ہو گئی ہے۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور الیکشن کمیشن کے مطابق انھیں چھ مخصوص نشستیں الاٹ کر دی گئی ہیں۔

صوبہ خیبرپختونخوا سے ایک، ایک سیٹ جیتنے والی عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینزکے حصے میں بھی ایک، ایک مخصوص نشست آئی ہے۔

اس طرح سے حزبِ اختلاف کی ان تمام جماعتوں کو ایک منتخب رکن پر 0.73 خواتین کی مختص نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے پیر کو تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے حوالے سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ سُنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں اور اب تمام تر مخصوص نشستیں ایوان میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن کے اس فیصلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 اور آئین کے آرٹیکل 51 کا حوالہ دیا گیا ہے۔ تاہم پنجاب سے الیکشن کمیشن کے ممبر بابر حسن بھروانہ کی جانب سے اس بارے میں اختلافی نوٹ لکھا گیا تھا اور ان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے پارلیمنٹ کو پہلے قانون بدلنا ہو گا۔

قومی اسمبلی میں صورتحال کیا رہی؟

تصویر
Getty Images

گذشتہ روز تک الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کل 68 خواتین کی مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی گئی تھیں اور تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کو یہ امید تھی کہ یہ نشستیں انھیں مل جائیں گی۔

قومی اسمبلی میں خواتین کی کُل 60 مخصوص نشستوں میں سے الیکشن کمیشن نے 40 نشستیں مختلف سیاسی جماعتوں میں بانٹی تھیں۔ ان میں سے پنجاب سے 32 میں سے 20، خیبرپختونخوا میں دس، سندھ کی تمام 14 نشستیں اور بلوچستان کی چار نشستیں شامل تھیں۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی مخصوص 10 میں سات نشستیں الاٹ کر دی گئی تھیں جبکہ تین باقی تھیں۔

تاہم اب الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی بچ جانے والی یہ 23 مخصوص نشستیں پاکستان مسلم لیگ ن (16)، پاکستان پیپلز پارٹی (5) جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام کو ایک، ایک مزید نشست مل گئی ہے۔

اسی طرح پنجاب اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص 66 نشستوں میں سے 42 الاٹ کر دی گئی تھیں، جبکہ آٹھ میں پانچ اقلیتی نشستیں بھی الاٹ کر دی گئی تھیں۔ سندھ اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص کل 29 نشستوں میں 27 الاٹ ہو گئی ہیں جبکہ نو میں آٹھ اقلیتی نشستیں بھی تقسیم کر دی گئی تھیں۔

خیبر پختونخوا پر اس فیصلے سے کیا فرق پڑا؟

پی ٹی آئی
Getty Images

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار لحاظ علی نے بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا سنہ 2018 کے عام انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا میں ضم قبائلی علاقوں میں انتخابات سنہ 2019 میں ہوئے تھے، جن میں سے خیبر پختونخوا اسمبلی سے ضلع خیبر سے منتخب تین آزاد امیدواروں نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا تھا۔

اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کا خیبر پختونخوا میں کوئی وجود بھی نہیں تھا اور انھیں انتخابات کے بعد کہا گیا تھا کہ وہ اپنی خواتین کے لیے مختص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست فراہم کریں۔ اس لیے باپ پارٹی نے بعد میں فہرست فراہم کی تھی اور انھیں خواتین کے لیے مختص ایک نشست مل گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ اگر سنہ 2019 میں الیکشن کمیشن اس طرح کا فیصلہ دے سکتا ہے تو اب سنہ 2024 میں ایسا کیوں نہیں ہو سکتا تھا اور اس بارے میں قانون اور الیکشن ایکٹ 2017 خاموش ہے اور اس وقت سنی اتحاد کونسل نے اپنی ترجیحی لسٹ جمع نہیں کروائی تھی اگر عدالت سنی اتحاد کونسل کے حق میں فیصلہ دے دیتی تو اس سے سنی اتحاد کونسل کو خواتین کے لیے مختص 21 نشستیں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص تین نشستیں مل سکتی تھیں۔

اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں خیبر پختونخوا سے کل نشستیں 45 ہیں اور اس حساب سے صوبے کے لیے خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 10 ہیں، جنھیں اب جمعیت علما اسلام ف، پاکستان مُسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمینٹیرینز اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان تقسیم کر دیا گیا ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

ای سی پی
Getty Images

الیکشن کمیشن نے سُنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اس نے تمام سیاسی جماعتوں کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے لیے 22 دسمبر کی ڈیڈلائن دی تھی جسے بعد میں 24 دسمبر تک بڑھا دیا گیا تھا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’ریکارڈ کے مطابق سنی اتحاد کونسل کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کروائی گئی تھی اور سنی اتحاد کونسل نے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی جماعت میں شمولیت کے بعد الیکشن کمیشن کو چار خط لکھے تھے، جس میں یہ نشستیں دینے کے لیے درخواست دی گئی تھی۔

الیکشن کمیشن کا مزید کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں نے قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لیے آٹھ فروری کے الیکشن میں بطور جماعت حصہ نہیں لیا اور پارٹی چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے مطابق ’آئین کے آرٹیکل 51 میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتیں جن کی قومی اسمبلی میں الیکشن جیتنے کے باعث نمائندگی موجود ہے وہ ہی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے آئین میں درج نظام کے تحت اہل ہوں گے۔‘

فیصلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، جس کے مطابق ’کسی اسمبلی میں خواتین اور غیر مسلموں کے لیے مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتیں کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ مدت کے اندر مخصوص نشستوں کے لیے امیدواروں کی فہرستیں بھی جمع کروائیں گی اور کمیشن کو یہ فہرستیں ترجیحی آرڈر میں صوبائی الیکشن کمشنر یا کمیشن کے دوسرے مجاز افسران کو دی جائیں گی جو ایسی فہرستوں کو عوام کی معلومات کے لیے شائع کریں گے۔‘

الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کہا کہ ’اس لیے کمیشن کا یہ ماننا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 51(6) کو اگر الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کے کوٹے کے لیے اہل نہیں ہے کیونکہ اس حوالے سے آئینی سقم اور فہرستیں جمع کروانے کے حوالے سے موجود ضروری قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’نیشنل اسمبلی میں یہ سیٹیں خالی نہیں رہیں گی اور انھیں سیاسی جماعتوں کی جانب سے جیتی گئی نشستوں کے اعداد و شمار کے تناسب سے بانٹ دیا جائے گا۔‘

اختلافی نوٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

الیکشن کمیشن کے ممبر بابر حسن بھروانہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ وہ بینچ کے دیگر ممبران کے ساتھ ’اس حد تک‘ تو متفق ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں اس لیے نہیں دی جا سکتیں کیونکہ جماعت ترجیحی فہرست مقررہ وقت میں جمع کروانے میں ناکام رہی ہے۔

’تاہم میرا اختلافی نوٹ اس بارے میں میں ہے کہ یہ نشستیں دیگر سیاسی جماعتوں کو دی جا رہی ہیں۔‘

انھوں نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ’میری رائے میں آئین کے آرٹیکل 51 (6-ڈی) اور آرٹیکل 106(3-سی) میں یہ واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو مخصوص نشستیں ان کے امیدواروں کی جانب سے جیتی گئی کل نشستوں کی بنیاد پر دی جائیں گی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے یہ نشستیں خالی رہنی چاہییں جب تک آئین آرٹیکل 51 یا 106 میں پارلیمان کی جانب سے ترمیم نہ کر دی جائے۔‘

الیکشن کمیشن کے فیصلے کا صدر پاکستان اور سینیٹ کے انتخابات پر کیا اثر پڑے گا؟

صدارتی اور سینیٹ کے انتخابات میں اس جماعت کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جس کے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ صدر اور سینیٹرز کا انتخاب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اراکین اسمبلی کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہ ملنے سے نہ صرف اس کے صدارتی انتخابات میں ووٹ کم ہو جائیں گے بلکہ پی ٹی آئی کے کم ووٹ ہونے کی وجہ سے اس کو ملنے والے سینیٹرز کی تعداد بھی کم ہو جائے گی۔

یوں پارلیمان کے ایوان بالا میں تحریک انصاف کا حجم سکڑ جائے گا۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے پر سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے حال ہی میں کہا تھا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق جب تک عدلیہ کا فیصلہ نہیں آتا صدارتی اور سینیٹ الیکشن نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ ’اس لیے فی الفور صدارتی اور سینیٹ الیکشن ملتوی کیے جائیں۔‘

یاد رہے کہ سنی اتحاد کونسل نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

مخصوص نشستوں کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرآئینی ہے۔ ان کے مطابق ’الیکشن کمیشن نے ہمیں مخصوص نشستوں کے حق سے محروم کیا، جمہوریت کے خلاف فیصلہ برداشت نہیں، اگر اس فیصلے کے بعد الیکشن ہوئے تو ہمیں منظور نہیں ہوں گے۔‘

علی ظفر نے مزید کہا کہ ’آج کے فیصلے پر سینیٹ سے مطالبہ کرتا ہوں پورے الیکشن کمیشن کو مستعفی ہوجانا چاہیے اور چیف الیکشن کمشنر پر آرٹیکل چھ لگنا چاہیے۔

کیا پی ٹی آئی اس صورتحال کی خود بھی ذمہ دار ہے؟

تصویر
Getty Images

الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف نے اس جماعت (سنی اتحاد کونسل) کا انتخاب کیا ہے، جس کے سربراہ نے خود بھی عام انتخابات میں اپنی جماعت کے انتخابی نشان گھوڑے کا انتخاب نہیں کیا اور آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لیا۔

الیکشن کمیشن کے مطابق مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے کسی سیاسی جماعت کا پارلیمانی جماعت ہونا لازمی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف نے سنی اتحاد کونسل کا انتخاب کر کے کیا کوئی غلطی کی ہے اور خود اس صورتحال کی ذمہ دار ہے؟

تحریک انصاف کے ایک رہنما نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ قانون کے مطابق کسی بھی جماعت کا رجسٹرڈ ہونا شرط ہے اور اس کا پارلیمانی پارٹی ہونا قانونی شرط نہیں ہے۔

ان کے مطابق جہاں تک بات ترجیحی فہرست کی ہے تو اس فہرست کو جمع کرانا محض ایک پریکٹس ہے قانون نہیں ہے۔

ان کے مطابق جب بلے کے انتخابی نشان سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت ہو رہی تھی تو یہ سوال سامنے آیا تھا کہ اگر انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دیے گئے تو پھر تحریک انصاف مخصوص نشستوں سے محروم ہو جائے گی۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو پھر یہاں پیٹیشن دائر کر دی جائے۔

تحریک انصاف کے مطابق وہ الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف اب سپریم کورٹ کا رخ کرے گی۔

تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر محمد علی سیف نے عام انتخابات سے چند روز قبل بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس وقت ان کی جماعت کو متعدد سیاسی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔

ان کے مطابق جس جماعت میں ہمارے آزاد اراکین کے ضم ہونے کی بات کے لیے مذاکرات شروع ہوتے تو سب سے پہلے پارٹی کے اندر سے ہی اختلافی آواز اٹھ جاتی ہے۔ ان کے مطابق پارٹی میں یہ کہا گیا کہ اگر تحریک انصاف پارلینٹیرینز میں شمولیت اختیار کی تو پھر مخصوص نشستیں وہی ملیں گی جن کی فہرست پہلے سے جمع ہے۔ اسی طرح وفاق میں مجلس وحدت المسلمین کی مخصوص نشستوں کے لیے فہرست بھی موجود نہیں تھی۔

ان کے مطابق اس کے علاوہ تحریک انصاف کی صفوں میں یہ تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ پارٹی کو کسی ایک فرقے کی نمائندہ جماعت میں شمولیت نہیں اختیار کرنی چاہیے۔

بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی مذاکرات اچھے رہے مگر پارٹی کے چند رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ وہ مذہبی تشخص والی جماعت ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.