عمران خان کا آئی ایم ایف کو خط ’سیاسی غلطی‘ ہے یا نئی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا مؤثر طریقہ؟

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے ترجمان کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج دیتے وقت سیاسی استحکام کو مدنظر رکھنے کی درخواست کی گئی ہے لیکن اس کے عمران خان اور ان کی جماعت کے علاوہ آئی ایم ایف معاہدے پر کیا اثرات ہوں گے؟
PTI
Getty Images

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے ترجمان کی جانب سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کو ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو بیل آؤٹ پیکج دیتے وقت سیاسی استحکام کو مدنظر رکھنے کی درخواست کی گئی ہے۔

یہ خط بانی پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹرکو لکھا ہے اور گذشتہ روز سے ہی اس خط کے مندرجات اور اس کے اثرات کے بارے میں خاصی بحث جاری ہے۔

پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ نو ماہ کا پروگرام مارچ کے آخر میں ختم ہو رہا ہے اور ملک کو معاشی استحکام کے لیے اپریل سے آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام پر مذاکرات شروع کرنے ہیں۔

اس کی اہمیت کا اندازہ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان کی نئی حکومت کو فوری طور پر معاشی صورتحال کو ترجیح دینا ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کی نئی حکومت کو فوری طور پر معاشی صورتحال کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ آئندہ کئی ماہ کی پالیسیاں پاکستانیوں کے لیے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے انتہائی اہم ہوں گی۔‘

پاکستان میں عام انتخابات کے بعد آج وفاق میں حکومت سازی اور پارلیمانی عمل کا آغاز ہو گیا ہے اور قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں نومنتخب اراکین اسمبلی کی حلف برداری نے ایک نئے پارلیمانی دور کی بنیاد رکھی ہے۔

مگر اس سب کے درمیان ملک میں سیاسی عدم استحکام اور رسا کشی کی گونج اب بھی سنائی دے رہی ہے اور اس کی وجہ پاکستان تحریک انصاف کے جانب سے ملک میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے الزامات عائد کرنا ہے۔

مگر جہاں ملک میں سیاسی عدم استحکام کی صورتحال برقرار ہے وہیں ملک کے معاشی مستقبل پر بھی کچھ خطرات منڈلا رہے ہیں۔

تاہم اس سب کے بیچ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو لکھا گیا خط کس قسم کی اہمیت کا حامل ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ اس خط میں کیا لکھا گیا ہے۔

pti
Getty Images

پی ٹی آئی کے خط میں کیا لکھا گیا؟

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی ہدایت پر لکھے گئے خط میں عالمی ادارے سے کہا گیا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 30 فیصد نشستوں کا آڈٹ یقینی بنائے اور بیل آؤٹ پیکیج کے وقت پاکستان کے سیاسی استحکام کو مدنظر رکھے۔

پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو مالی سہولت دینے سے پہلے گڈ گورننس کے ساتھ ساتھ دیگر شرائط رکھے۔

خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’صرف منتخب حکومت کے ساتھ ہی مذاکرات کیے جا سکتے ہیں اور پی ٹی آئی پاکستان کی سب سے بڑی اور مقبول سیاسی جماعت ہے، پاکستان کے عوام کے اعتماد کی حامل منتخب حکومت ہی اس حوالے سے بات چیت کا اختیار رکھتی ہے۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ جب کسی ایسی حکومت کو ملک پر مسلط کیا جائے جسے عوام کی حقیقی نمائندگی حاصل نہ ہو تو اس کے پاس ملک کو چلانے کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہوتی اور ٹیکس کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں کر سکتی۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن پر 50 ارب روپے کے اخراجات آئے لیکن اس میں بڑے پیمانے پر مداخلت اور ووٹوں کی گنتی اور حتمی نتیجے میں فراڈ کیا گیا، یہ فراڈ اتنا واضح تھا کہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک نے انتخابات کی شفاف اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ہم حکومت سازی، قرضوں کی ادائیگی اور قانون کی حکمرانی کے لیے آئی ایم ایف کی ڈیل کی اہمیت سے آگاہ ہیں، پی ٹی آئی آئی ایم ایف کی سہولت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی کیونکہ یہ وہ سہولت ہے جو ملک کی طویل مدتی معاشی بہبود کو فروغ دیتی ہے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آئی ایم ایف تحقیقاتی ادارے کا کام کرے لیکن فافن اور پٹن کولیشن 38 جیسے اداروں کے تعاون سے الیکشن کا شفاف آڈٹ کر کے تمام سٹیک ہولڈرز کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

nawaz sharif
Getty Images

’پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو خط ریاست مخالف اقدام ہے‘: نواز شریف

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے عمران خان کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کو لکھے گئے خط کو ریاست مخالف قرار دیا ہے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس پہنچنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے سیاسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ آئی ایم ایف کو خط لکھنا ملک دشمنی کے مترادف ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ایسے خط وہی لکھ سکتے ہیں یہ ان کا وطیرہ ہے، کوئی دوسری سیاسی جماعت ایسے خط نہیں لکھ سکتی، آپ خود ہی نتیجہ اخذ کر لیں۔‘

نواز شریف نے کہا کہ ’سیاسی جماعتیں صرف اس طرح خط نہیں لکھ سکتیں، ایسا صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو بااختیار ہیں۔‘

یہ بھی واضح رہے کہ 22 فروری کو بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا تھا کہ عمران خان کی جانب سے آئی ایم ایف کو خط لکھا جائے گا، جس میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں جتنے حلقوں میں دھاندلی ہوئی وہاں آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا جائے۔

بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا تھا کہ ملک کے خلاف ہم کچھ بھی نہیں کریں گے، ریاست، جمہوریت اور قانون کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

IMF
Getty Images

کیا پی ٹی آئی کے خط سے پاکستان اور آئی ایم ایف کی ڈیل پر اثر پڑے گا؟

ماہر معیشت خرم حسین نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا امکان بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط کی کوئی زیادہ حیثیت نہیں ہے اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ اس سے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات، تعلقات یا ڈیل پر کوئی اثر پڑے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس بارے میں آئی ایم ایف کی جانب سے پہلے ہی ایک بیان سامنے آ چکا ہے جس میں اس نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ پاکستان کی جو بھی نئی حکومت ہو گی ہم اس کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ اسی طرح امریکہ نے بھی بیان میں کہا ہے کہ وہ قرضوں اور بین الاقوامی مالیات کے شیطانی چکر سے آزاد ہونے کے لیے پاکستان کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف ملک میں ایک مضبوط اپوزیشن ہے تو کیا اس متعلق آئی ایم ایف پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے خط کے مندرجات پر غور کر سکتا ہے کہ جواب میں خرم حسین نے کہا کہ ’آئی ایم ایف اس خط کے حوالے سے یہ سمجھ جائے گا کہ یہ سیاسی نوعیت کا خط ہے اور آئی ایم ایف کو کسی بھی ملک کے سیاسی معاملات نہیں بلکہ معاشی معاملات سے سروکار ہوتا ہے۔‘

پی ٹی آئی سے منسلک ماہر معیشت مزمل اسلم نے خرم حسین سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت آئی ایم ایف کا جو پروگرام چل رہا ہے اس کے لیے بھی آئی ایم ایف وفد نے پی ٹی آئی لیڈرشپ سے بات کی تھی اور پھر نگراں سیٹ اپ میں بھی جب پارٹی کی سینیئر لیڈرشپ جیلوں میں تھی تو پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات عبدالرؤف حسن اور چیئرمینبیرسٹر گوہر سے بات کی گئی تھی۔‘

انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ #پی ڈی ایم دور حکومت میں ہونے والی ملاقات میں وہ خود بھی موجود تھے جس میں آئی ایم ایف وفد نے عمران خان سے ملاقات کی تھی اور پھر پاکستان کو آئی ایم ایف نے نو ماہ کا پروگرام دیا۔‘

مزمل اسلم کہتے ہیں کہ ’اگر آئی ایم ایف ہم سے رابطے میں ہے تو آپ کو کیا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف ہمارے لکھے خط کو زیر غور نہیں رکھے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کو کہا ہے کہ نئی حکومت کے مینڈیٹ پر آڈٹ ہو جائے جو آئی ایم ایف نہ کرے بلکہ دیگر ادارے کریں تاکہ جب آپ اپریل میں نئے پروگرام کے لیے مذاکرات کا آغازہو تو آئی ایم ایف عوام کی نمائندہ حکومت سے بات چیت کر رہی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے خط میں کہا ہے کہ اگر ہمارے خط کا کوئی اثر نہ ہونا ہوتا تو آج نواز شریف سمیت سب کی زبانوں پر خط کا تذکرہ نہ ہوتا۔

IMF
Getty Images

کیا پی ٹی آئی سیاسی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر رہی ہے؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے خرم حسین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اس مرتبہ بھی خط لکھ کر وہ ہی سب کچھ کر رہے ہے جو اسے کرنا آتا ہے یعنی مزاحمت کی سیاست لیکن انھیں یہ علم نہیں کہ جب آپ اینٹی اسٹیبلشمنٹ مزاحمت کرتے ہیں تو آپ کو سیاست بھی آنی چاہیے اور اس میں پی ٹی آئی ناکام ہو رہی ہے۔

’وہ سڑکوں پر احتجاج کی کال تو دے رہے ہیں لیکن پارلیمانی سیاست میں ناکام ہو رہے ہیں، پہلے وحدت المسلمین سے اتحاد کی بات کی اور پھر سنی اتحاد کے ساتھ الحاق کی اور انھیں اب پتا چلا کہ اس نے تو مخصوص نشستوں کے لیے فہرست ہی نہیں دی۔‘

خرم حسین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو صرف احتجاج کرنا آتا ہے اور وہ اس مرتبہ بھی وہ ہی کر رہی ہے۔

مزمل اسلم کہتے ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ ہم صرف مزاحمت اور احتجاج کی سیاست کرتے ہیں تو انھیں یہ علم ہی نہیں کہ ہم نے آٹھ فروری کو سیاسی برج الٹا دیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بہت سے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں کہ پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان انٹریکشن لیول کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی نے ماضی میں آئی ایم ایف کے پروگرام کی حمایت نہ کی ہوتی تو آج آئی ایم ایف کا پروگرام ہی نہ چل رہا ہوتا۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے شہباز رانا کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کا آئی ایم ایف کو خط ایک مس فائر سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

’پی ٹی آئی غالباً یہ سمجھتی ہے کہ آئی ایم امریکہ کا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ یا جسٹس ڈپارٹمنٹ ہے جو الیکشن میں دھاندلی کی تحقیقات کروا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہے اگر اس قسم کی چیزوں میں آئی ایم ایف نے مداخلت کرنا شروع کر دی تو اس کے لیے کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پی ڈی ایم کی حکومت میں جب آئی ایم ایف کی ٹیم پی ٹی آئی سے ملی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک حکومت جا رہی تھی، اس کی جگہ ایک نگران حکومت آ رہی تھی اور اس کے الیکشن ہونے تھے جس کے نتیجے میں کوئی بھی جماعت اقتدار میں آ سکتی تھی اس لیے آئی ایم ایف کا اس وقت ملاقات کرنے کی سمحھ بھی آتی تھی۔‘

’پی ٹی آئی کا خط عمران خان کی مشکلات بڑھا دے گا‘

سیاسی تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی کی رائے میں پی ٹی آئی نے یہ خط لکھ کر اپنے بانی عمران خان کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں اس خط کی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اگلے پروگرام کے لیے مذاکرات میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف کا پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل دینے کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط میں پاکستان کے الیکشن کے آڈٹ کرانے کی بات کی گئی ہے جو کہ الیکشن کمیشن اور پاکستانی عدالتوں کا مینڈیٹ ہے۔‘

مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ ’سیاسی طور پر یہ پی ٹی آئی کی غلطی ہے کیونکہ اس سے ان کے بانی عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔‘

’اس خط کے متن کے حوالے سے پی ٹی آئی کے اندر بھی اختلاف رائے موجود ہے۔‘

مجیب الرحمان شامی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اس سے ملک کی سیاسی صورتحال میں کھینچا تانی کی صورت برقرار رہے گی اور پی ٹی آئی کو نقصان ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ اگر عمران خان کے حریف خط لکھنے پر بات کر رہے ہیں تو دراصل یہ پی ٹی آئی کے خلاف اس چیز کو سیاسی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ اگر پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے پروگرام میں جانے پر تاخیر ہوتی ہے یا مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے تو پی ٹی آئی کے سیاسی حریف اس کو استعمال کرتے ہوئے یہ بیانیہ بنائیں گے کہ عمران خان نے ذاتی سیاست کو ملکی معیشت پر ترجیح دی اور عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے اقتدار کی رسا کشی کو اپنایا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی سیاست پر اس کے اثرات کی اگر بات کی جائے تو یہ بات افسوسناک ہے کہ آپ ملک کے داخلی معاملات میں خارجی اداروں کو مداخلت کی دعوت دے رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.