پی سی بی کے خوابوں کا گھڑ سوار شہزادہ: سمیع چوہدری کا کالم

نہ تو کوئی مخالف امیدوار نامزد ہوا، نہ ریجنز کے نمائندگان اپنا ووٹ بغل میں چھپائے کوئی بھاؤ برت پائے اور نہ ہی کوئی تنازع اٹھنے پایا۔ بس، رومانوی ناولوں کی افسانوی ہیروئنوں کی طرح، اچانک ایک صبحِ روشن، پی سی بی کو بھی اپنے خوابوں کا گھڑ سوار شہزادہ مل گیا۔

جس انداز سے پی سی بی کے اقتدار کا ہما محسن نقوی کے سر پہ بٹھایا گیا ہے، وہ قابلِ تقلید نہ بھی سہی، لائقِ تحسین تو ہے کہ بھئی اگر الیکشن ہوں تو ایسے ہی بلامقابلہ و بلامبالغہ، جہاں شفافیت پر کوئی حرف آنے کا امکان تک نہ رہے۔

نہ تو یہاں کوئی مخالف امیدوار نامزد ہوا، نہ ریجنز کے نمائندگان اپنا ووٹ بغل میں چھپائے کوئی بھاؤ برت پائے اور نہ ہی کوئی تنازع اٹھنے پایا۔ بس، رومانوی ناولوں کی افسانوی ہیروئنوں کی طرح، اچانک ایک صبحِ روشن، پی سی بی کو بھی اپنے خوابوں کا گھڑ سوار شہزادہ مل گیا۔

اور پھر تین سال کے لیے سب ہنسی خوشی رہنے کو تیار ہو گئے۔

ملک میں عام انتخابات سے عین دو روز پہلے ایسا اطمینان افروز الیکشن کروا کر بلاشبہ سیاسی ووٹرز کے لیے بھی ایک عمدہ نظیر قائم کی گئی ہے کہ اگر نگہ بلند اور سخن دلنواز ہو تو الیکشن ایسے پر سکون بھی ہو سکتے ہیں۔

اقوامِ عالم کی برابری کا شوق چونکہ پی سی بی میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور اپنے تنظیمی ڈھانچے میں یہ کہیں بھی خود کو کرکٹ آسٹریلیا یا بی سی سی آئی سے پیچھے نہیں دیکھنا چاہتا، جبھی اس کے ہاں ایک آئین بھی موجود ہے اور چئیرمین کے انتخاب کا ایک جمہوری طریقہ کار بھی مگر اپنی اصل میں یہ آئین اور الیکشن بھی اتنے ہی جمہوری ہیں جس قدر مملکتِ خدادا نے جمہوریت کو سینے سے لگا رکھا ہے۔

اب یہ سُجھانے کی دشواری الگ ہے کہ جب بالآخر کرسئ صدارت پہ جلوہ افروز اسی چشم و چراغ کو ہونا ہے جو دس رکنی بورڈ آف گورنرز میں، پیٹرن ان چیف یعنی وزیراعظم کا نامزد کردہ ہو گا تو پھر یہ ساری مشق چہ معنی دارد؟

ابھی چار ماہ بعد آئی سی سی کا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ ہو گا جہاں پاکستانی کرکٹرز کا جوڑ ان کھلاڑیوں سے پڑے گا جو بی سی سی آئی، کرکٹ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کرکٹ اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ جیسے اداروں کے منظم قالب میں سے تیار ہو کر نکلے ہیں اور تب پوری قوم آسمانوں پہ نگاہیں جمائے، معجزات کی منتظر نظر آئے گی۔

ذکا اشرف
AFP

اور تب ہر ہار پہ طعن و تشنیع سہنے والے پاکستانی کھلاڑی بھی کس کس کو یہ سمجھا پائیں گے کہ پچھلے سوا سال میں وہ پانچ مختلف چئیرمین، چار چیف سلیکٹرز، تین ہیڈ کوچز اور لگ بھگ اڑھائی ٹیم ڈائریکٹرز کی مختلف النوع فلاسفیوں کی گتھیاں سلجھانے میں اس قدر مصروف رہے ہیں کہ اتنی ہڑبونگ میں کرکٹ واقعی کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔

اور جن آسٹریلوی، برطانوی و بھارتی کرکٹ کلچرز کی مسابقت کا خواب پاکستانی شائقین آنکھوں میں بسائے بیٹھے ہوں گے، انہیں بھی یہ کون بتلائے گا کہ یہ سعادت نہ تو چھ رکنی آسٹریلوی کرکٹ کے بورڈ آف گورنرز کو نصیب ہوا کرتی ہے اور نہ ہی 30 رکنی بھارتی بورڈ آف گورنرز کو، کہ ملک کا چیف ایگزیکٹو آدھ گھنٹے کے لیے پیٹرن ان چیف کا چولا پہن کر بورڈ کا سربراہ خود اپنے ہاتھوں سے ایسے کاشت کرے جیسے اوائل بہار میں پسندیدہ پودے کی پنیری اٹھائی جاتی ہے۔

عمران خان کے چنندہ رمیز راجہ آئے تو انھوں نے سابق کوچز کی دو سالہ مشقت کو رجعت پسندی قرار دے کر بیک جنبشِ قلم فراغت بخشی اور ٹیم اپنے ماضی کے معتمدین کو تھما ڈالی۔ پھر نواز شریف کے نوازے ہوئے نجم سیٹھی وارد ہوئے تو فرمایا کہ صرف غیر ملکی کوچز ہی اس کرکٹ کلچر کے نجات دہندہ ہو سکتے ہیں۔

ابھی منتوں مرادوں سے لیس مکی آرتھر کے تقرر کے فیصلے کی سیاہی خشک نہ ہونے پائی تھی کہ آصف زرداری کو پاکستان کرکٹ کی فکر ستانے لگی اور ان کے لائے ہوئے ذکا اشرف نے غیر ملکی کوچز مکی آرتھر اور گرانٹ بریڈبرن کو ہائی پرفارمنس سینٹر میں 'او ایس ڈی' لگا کر زمامِ کار واپس ملکی کوچز کو تھما دی۔

اب شاہ خاور کے الیکشن کمیشن نے جس محسن نقوی کو بلا مقابلہ چنا ہے، وہ کس محکمے کے منظورِ نظر ہیں، اس بارے تو راویان بے بہا کوڑیاں لا رہے ہیں مگر موصوف نے آتے ہی کرکٹ کی نشاطِ ثانیہ کا جو عزم کیا ہے، اس کے تحت ایک بار پھر غیر ملکی کوچز ہی پاکستان کی بقا کا ضامن ٹھہرائے گئے ہیں۔

اب جہاں ادارے کی قیادت اور پالیسیوں میں تسلسل کا یہ عالم ہے، وہاں پھر کھلاڑیوں سے یہ توقع بھی جوڑ رکھی جاتی ہے کہ اس ساری مارا ماری سے بالاتر ہو کر عالمی سٹیج پہ اچانک وہ کسی عزم سے اٹھ کھڑے ہوں گے اور تمام مستحکم کرکٹ کلچرز کے نمائندگان کے بخئے ادھیڑ ڈالیں گے۔

رمیز راجہ
Getty Images

مگر یہاں یہ سوچنے کی فرصت کسے ہے کہ کھلاڑی بھی گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں، فلمی سکرپٹ رائٹرز کے گھڑے ہوئے کردار نہیں، جو کیمرہ کھلتے ہی اپنے اندر کا رابرٹ ڈی نیرو بیدار کر لیں اور شائقین انگلیاں دانتوں میں دبائے رہ جائیں۔

بابر اعظم ہوں، شاہین آفریدی ہوں کہ محمد رضوان، یہ کوئی خلا میں معلق کردار نہیں ہیں کہ اپنے ماحول کی بےڈھب ہوا سے متاثر نہ ہو پائیں۔ یہ سب قومی ہیروز ہیں کہ اپنے کھیل کے بلا مبالغہ ماہرین ہیں مگر عالمی سطح پہ دنیا بھر کو پچھاڑ کر ٹرافیاں اٹھانے کے لیے انھیں بھی ایک مربوط ڈھانچہ اور مضبوط سسٹم درکار رہتا ہے جو تسلسل سے ان کی نمو کی پرداخت کر سکے۔

مگر یہاں یہ لغویات سوچنے کی مہلت کسے ہو اور کیونکر ہو؟

فی الوقت تو یہی بڑی نوید ہے کہ غریب کی جورو پی سی بی کو اپنے خوابوں کا ایک اور شہزادہ مل چکا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.