نیلوفر ایوبی: ’والد نے قینچی سے میرے بال کاٹے اور والدہ سے کہا آج سے اسے لڑکے کی طرح کپڑے پہناؤ‘

نیلوفر افغانستان میں 1996 سے 2001 تک کے طالبان حکومت کے پہلے دور میں پلی بڑھی تھیں اور اس دوران انھوں نے 10 سال کی عمر تک ایک لڑکے کی طرز اپنا کر زندگی گزاری تاکہ اسلامی قوانین کے نام پر طالبان کے نافذ کیے ہوئے جابرانہ کنٹرول سے دور رہ سکیں۔

چار سالہ نیلوفر ایوبی کا چہرہ اس تھپڑ سے سرخ ہو رہا تھا جو انھیں ایک ایسے مرد نے مارا تھا جسے وہ جانتی تک نہ تھیں۔ وحشیانہ انداز میں مارا گیا تھپڑ اتنا زوردار تھا کہ وہ زمین پر گر گئیں۔ تھپڑ لگنے سے قبل ننھی نیلوفر کھیل رہی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں روتی ہوئی گھر واپس آئی۔ اس واقعے پر میرے والد کا چہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔‘

افغانستان کی صحافی نیلوفر ایوبی نے 23 سال پہلے کے اس واقعے کی تفصیلات بی بی سی کو بتائیں جو نیلوفر کے ذہن میں آج بھی نقش ہے۔

نیلوفر کو مارنے سے کچھ دیر پہلے اس اجنبی نے ان کے سینے کو چھوتے ہوئے ’نسوانیت‘ کے آثار تلاش کیے اور پھر اس کے بعد دھمکی دی کہ اگر نیلوفر نے نقاب نہ پہنا تو اگلی بار وہ ان کے والد کو مار ڈالے گا۔

مجھے یاد ہے کہ میرے والد غصے میں ٹہلتے ہوئے مسلسل بڑبڑا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’وہ تمھیں کیسے چھو سکتا ہے۔‘

چند لمحے بڑبڑانے کے بعد نیلوفر کے والد نے ایک فیصلہ کیا۔ ’انھوں نے میری والدہ سے قینچی مانگی، میرے بال کاٹے اور ان سے کہا ’اسے لڑکے کی طرح کپڑے پہناؤ۔‘

نیلوفر افغانستان میں 1996 سے 2001 تک کے طالبان حکومت کے پہلے دور میں پلی بڑھی تھیں اور اس دوران انھوں نے 10 سال کی عمر تک ایک لڑکے کا طرز اپنا کر زندگی گزاری تھی تاکہ اسلامی قوانین کے نام پر طالبان کے نافذ کیے ہوئے جابرانہ کنٹرول سے دور رہ سکیں۔

نیلوفر نے اپنی ان مشکلات سے آگاہ کیا جو دنیا کے سب سے زیادہ قدامت پسند علاقوں میں پلنے بڑھنے والوں کو پیش آتی ہیں۔ جہاں خصوصاً ایک خاتون کے تمام حقوق کا تعین معاشرے کے فرسودہ نظام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

نیلوفر ایوبی
Getty Images
افغانستان میں لڑکے اور لڑکی کی زندگی میں اکثر غیر معمولی فرق ہوتا ہے

قندوز خواتین کے لیے مشکل ترین جگہ

نیلوفر کی پیدائش 1996 میں ہوئی تھی لیکن ان کی شناختی دستاویزات کے مطابق وہ 1993 میں پیدا ہوئی تھیں۔

ان کے والد نے یہ تبدیلی اس لیے کی تھی تاکہ سنہ 2001 میں امریکی مداخلت کے بعد طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ان کی بیٹی جلد از جلد اپنی تعلیم شروع کر سکے۔

’قندوز ایک عورت کے لیے کوئی بہتر شہر نہیں سمجھا جاتا۔ یوں تو یہ ایک مرد کے لیے بھی کافی مشکل ہے تاہم عورت کے لیے مشکل ترین جگہ ہے۔‘

یہاں اگر آپ ایک لڑکا ہیں تو آپ کو خود بخود طاقت ملتی ہے۔ اگر آپ دو سال کے بچے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اپنی پیدا کرنے والی ماں سے زیادہ عزت ملتی ہے۔

چار سال کی عمر میں آپ اس عورت کے قانونی محافظ بن سکتے ہیں جو آپ کو دنیا میں لائی اور وہ آپ کا حکم ماننے کی پابند ہے اور تابعدار ہے۔ اور یہاں اگر آپ عورت ہیں تو آپ کو پوشیدہ رہنا ہو گا۔‘

نیلوفر کے مطابق اس طرح کے سخت قوانین کے تحت خاندانوں کے لیے اپنی بیٹیوں کو مردوں جیسا لباس پہنانا عام تھا۔ اگر خاندان کے پاس بنیادی کفیل نہ ہو تو طالبان کی نافذ شریعت کے تحت، کوئی بھی مرد ایسی عورت سے رابطہ کر سکتا ہے جس کے پاس کوئی کفیل نہ ہو اور اسے اس مرد کی پانچویں یا چھٹی بیوی بننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

میرے معاملے میں یہ مختلف تھا۔ یہ ایک اہم کفیل کی کمی کی وجہ سے نہیں تھا، بلکہ اس کی وجہ آزادی سے زندگی گزارنے کی خواہش تھی۔‘

نیلوفر کو یاد ہے کہ ان کے گھر کے سربراہ یعنی ان کے والد، اس وقت افغانستان میں ایک خاص آدمی تھے، ’وہ سیاست سے نفرت کرتے تھے۔‘

آزادی

بال منڈوانے اور اپنے ایک بھائی کے کپڑے پہننے کے بعد باپ کے سامنے کھڑی نیلوفر اپنی بہنوں سمیت اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں سے یکسر مختلف زندگی شروع کرنے والی تھیں۔

’اس کے بعد سے میں اپنے بھائیوں کی طرح روزمرہ کی زندگی گزانے لگی اور اپنے والد کے ساتھ لڑکوں کا لباس پہن کر بازار جا سکتی تھی۔

’ہم میلوں میل پیدل چل سکتے تھے۔ ہم کھیل دیکھنے کے لیے بس پر گئے، پڑوس میں میرے دوست تھے اور میں سارا وقت گلی میں کھیلتی رہتی۔‘

دوسری طرف نیلوفر کی بہنوں کو اپنے سر کو مکمل ڈھانپنا پڑتا اور قدامت پسند لباس پہننا پڑتا چاہے وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہوں۔ اور اس سے ان کے والد نفرت کرتے تھے۔

’میرے والد نے ہمارے گھر میں ایسے کپڑے پہننے سے کبھی اتفاق نہیں کیا، وہ ہمیشہ میری ماں سے الجھتے اور ان سے پوچھتے تھے کہ وہ اپنے ناپ کے کپڑے پہننے کے بجائے بہت لمبے اور ڈھیلے ڈھالے لباس کیوں پہنتی ہیں۔ تو میرے والد اس طرح کے مرد تھے۔‘

’ہم نے لڑکیوں سے کہا بے بی، تم کتنی پیاری اور سیکسی ہو‘

افغانستان میں بچے
Getty Images

دو شناخت والی دنیا میں پرورش پانے والی نیلوفر ہمیشہ خود کو مختلف محسوس کرتی تھیں اور اس کو شاید ان کی ایک اور ہم عمر پڑوسی بچی ہی سمجھ سکتی تھی جو انھی کی طرح لڑکوں والا لباس پہن کر اپنی اصل شناخت چھپاتی تھی اور جس کے ساتھ مل کر انھوں نے بہت شرارتیں کی تھیں۔

’ہم دونوں کا چولی دامن کا ساتھ تھا۔ جب بھی کسی ایک کو پکڑے جانے کا خدشہ ہوتا دوسرا اس کو بچاتا۔‘

واضح رہے کہ حلیہ بدلنے کے باوجود خواتین کے طور پر شناخت سامنے آنے کے خطرے کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی تھی۔

اس صورت حال میں خود کو لڑکے کے طور پر پیش کرنے میں ہم اس قدر ماہر تھے کہ اردگرد لوگوں کے لیے یہ سوچنا بھی محال تھا کہ میں دراصل لڑکی ہوں۔

’مجھے یاد ہے کہ وہ میں ہی تھی جس نے ایک محفل میں کہا تھا کہ آؤ چلو لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں اور ہم نے ان سے کہا ’اوہ بے بی، تم کتنی پیاری اور سیکسی ہو۔‘

نیلوفر کی زندگی میں جوڈو، کراٹے اور سائیکل چلانا شامل تھا جبکہ اس دوران ان کی دیگر بہنیں قندوز میں ایک روایتی عورت کی طرح کی زندگی گزار رہی تھیں جو گھر میں خاموشی سے خود کو مردوں کی نظروں سے دور رکھتی ہیں۔

’میں نے اپنی بہنوں سے کبھی رابطہ نہیں کیا۔ مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ان کی دنیا کیسی تھی اور اسی لیے مجھے نہیں معلوم تھا کہ لڑکیوں کو ماہواری آتی ہے۔‘

نیلوفر نے سینیٹری نیپکن کی تشہیر کرنے والے اشتہارات دیکھے تھے کہ کس طرح وہ ان پر پانی کے قطرے چھڑکتے ہیں لیکن انھیں اس کے کام یا استعمال کا علم نہیں تھا۔

’ایک بار جب مجھے ایک سینیٹری پیڈ مل گیا تو میں اپنے والد کے پاس لے گئی اور ان سے پوچھا ڈیڈی، ڈیڈی، دیکھیں یہ وہی ہے جو ٹی وی پر دکھاتے ہیں یہ کتنا عجیب ہے مگر یہ ہے کس لیے؟ میرے والد کو معلوم نہیں تھا کہ مجھے اس کا کیا جواب دیں۔

’پھر میں اسے اپنی بہن کے پاس لے گئی اور پوچھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے مجھ سے وہ چھینا اور مجھے ڈانٹا۔ اس وقت بھی کسی نے مجھے یہ بتانے کا نہیں سوچا کہ ماہواری کیا ہے۔‘

’خدا سے دعا کی کہ مجھے قوس قزح کے نیچے سے گزرنے دے‘

افغانستان میں خواتین
Getty Images

13 سال کی عمر میں ایک روز نیلوفر جوڈو کی کلاس کے بعد گھر واپس آئیں تو ان کا حال برا تھا۔ ان کی ٹانگوں میں شدید درد ہوا اور اٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔

جب وہ باتھ روم گئیں تو دیکھا کہ ان کے زیریں جسم سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئیں تاہم ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی زندگی کو ایک بار پھر بدل دے گا۔

’اگلے دن میں نے اپنی دوست کو بتایا تو وہ ہنس پڑی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اتنی بیوقوف ہوں اور کیا میری بہنوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا؟‘

یہ نیلوفر کی رازدار دوست تھی جس نے ٹیلی ویژن پر تشہیر کیے جانے والے سینیٹری نیپکن کا راز ان کھولا اور اس کا استعمال بتایا۔

’جب میں گھر پہنچی تو میری ماں نے میرے کپڑوں پر داغ دیکھے تو بجائے مجھے گلے لگانے اور تسلی دینے کے انھوں نے مجھے ڈانٹنا اور کوسنا شروع کر دیا اور کہا کہ تم اتنی جلدی کیوں بڑی ہو گئیں؟‘

نیلوفر کی ماں رونے لگیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیٹی کا مستقبل ان کی دوسری بیٹیوں کی طرح اب گھر کی بند چار دیواری ہے۔

’وہ واضح طور پر اس خیال کی عادی ہو چکی تھیں کہ میں لڑکا ہوں اور انھیں اس پر اعتماد تھا کہ میں اس شناخت کے ساتھ محفوظ ہوں اور ابیہ وہ لمحہ تھا جب انھیں احساس ہوا کہ یہ سب بیکار تھا۔‘

نیلوفر کو اب ایک زیادہ تکلیف دہ عمل سے گزرنا تھا اور اس بار انھیں اپنی اس صنفی شناخت کو سنبھال کر چلنا تھا جس پر وہ پیدا ہوئی تھیں۔

’ہمارے پاس روایتی کہانیاں اور مفروضے موجود تھیں کہ اگر آپ قوس قزح کے نیچے سے گزریں تو آپ کی جنس بدل جائے گی۔‘

’مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اس وقت میں اتنی پریشان تھی کہ رات کو میں اپنے بستر میں چھپ کر خوب روئی اور خدا سے دعا کی کہ مجھے قوس قزح کے نیچے سے گزرنے دے۔‘

’میرے ذہن میں ہر طرح کے خیالات آ رہے تھے کہ اگر مجھے قوس قزح نظر آئی تو مجھے اس میں سے کیسے گزرنا ہو گا۔‘

 طالبان
Getty Images
اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ملک چھوڑنے کے خواہاں لوگوں میں خوف و ہراس اور الجھن پیدا کر دی۔

جسم کی نشوونما روکنے کے لیے تنگ لباس کا استعمال

سنہ 2001 میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں لڑکیاں دوبارہ کلاس رومز میں واپس آنے کے قابل ہوئیں۔

ایک مرد کے طور پر زندگی گزارنے کے سالوں نے نیلوفر کی شناخت پر گہرا اثر ڈالا اور اس بات نے انھیں ایسا پراعتماد بنایا جو ان کے سکول کی دوسری لڑکیوں میں ناپید تھا۔

افغانستان 11 ستمبر 2001 کے بعد ملک میں امریکی مداخلت کے بعد سیاسی عدم استحکام کے ایک نئے دور سے گزر رہا تھا۔

اس دور میں ایک نئی حکومت قائم ہو کر اپنی خود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف تھی تاہم اس دوران تعلیم جیسے کچھ حقوق تک خواتین کی رسائی ہو گئی۔

نیلوفر اب سکول جانے کے قابل تھیں تاہم ان کے اندر بچپن سے پروان چڑھنے والا باغیانہ جذبہ برقرار تھا۔

’میں نے لڑکیوں کو بلوغت کی آگاہی دینے کے لیے ایک گروپ بنایا اور اس کے ذریعے ہم نے سکولوں میں لڑکیوں کو ان چیزوں کے بارے میں تعلیم دینے کے لیے اپنی تحریک شروع کی جو انھیں نہیں سکھائی جاتی تھیں جیسے بلوغت سے متعلق جسمانی تبدیلیاں۔‘

’افغانستان میں ایک لڑکی کے لیے ہر چیز ممنوع ہے ان میں وہ سب فطری چیزیں بھی شامل ہیں جو بچی کو عورت بننے کی طرف لے جاتی ہیں جب ان کے جسم میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔ لڑکیاں ان تبدیلیوں پر اتنی شرمندہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے جسم کو ایسے تنگ لباس میں لپیٹنے کی کوشش کرتی ہیں جو ان کی نشوونما کو روکتا ہے۔‘

اس تمام عرصے میںنیلوفر کی تعلیمی کارکردگی شاندار تھی اور انھوں نے انڈیا جا کر بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے دروازے کھول دیے۔

اس وقت جب وہ ماسٹر ڈگری کے لیے انتھک محنت کر رہی تھیں تو اس دوران پہلی بار انھوں نے شادی کے خیال پر غور کیا۔

"جب سے میں چھوٹا تھی تو مجھے بہت سی درخواستیں موصول ہوئیں، جن پر میرے والد نے ہمیشہ انھیں جواب دیا ’کیا تم اس کے پاس جانے کی ہمت نہیں کرتے۔ وہ ابھی شادی نہیں کرنے والی، وہ اپنی پڑھائی مکمل کرے گی اور پھر اپنے لیے انتخاب کرے گی۔‘

’ میرے بھی دماغ میں یہی بات تھی، میں اپنے ماسٹر کی ڈگری حاصل کر لوں پھر ایک شوہر تلاش کروں گی۔‘'

نیلوفر کی شادی 2016 میں ہوئی، جب وہ 19 سال کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے میں اس وقت 2015 میں فوت ہو جانے والے اپنے والد کے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر نا چاہ رہی ہوں۔ ۔

’جب میری بھابھی نے میرے شوہر سے ملاقات کی تو کہا کہ وہ میرے والد سے ملتا جلتا ہےگاس وقت میں نے اسے نہیں دیکھا تھا اور مجھے یقین تھا کہ کوئی میرے والد جیسا نہیں ہو سکتا، لیکن وہ تقریباً ان ہی جیسا تھا۔

’بلاشبہ کوئی بھی میرے والد کی جگہ نہیں لے سکتا، لیکن اس نے اس خلا کو پر کیا اور میرے ساتھ اتنا تعاون کیا جتنا میرے والد کرتے تھے۔

افغانستان واپس آ کر اور اپنے شوہر کے تعاون سے نیلوفر ایک کاروباری شخصیتبن گئیں جس نے فیشن، فرنیچر اور انٹیریئر ڈیزائن کی ایک سلطنت بنا ڈالی جہاں خواتین کو ترجیحاً ملازمتیں دی جاتی تھی۔ اپنے کاروبار کے عروج کے دور میں ان کے پاس 300 ملازمین اور شہر میں کئی اسٹور تھے۔

افغانستان میں خواتین کی مشکلات
Getty Images

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ملک چھوڑنے کے خواہاں لوگوں میں خوف و ہراس اور الجھن پیدا کر دی۔

افغانستان میں نیلوفر کے خاندان کی مالی کامیابی کے باوجود، ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورت حال سکیورٹی کی خرابی سے ظاہر ہونے لگی۔

اور پھر اگست 2021 آگیا۔ طالبان مہینوں سے اپنی جگہ بنا رہے تھے، اور اگست میں وہ دوبارہ دارالحکومت کابل پہنچ گئے۔

نیلوفر کہتی ہیں، ’میرے شوہر کو ایک حکومتی وزیر کا فون آیا جس نے ان سے درخواست کی کہ وہ انبیٹی کے لیے فوری طور پر شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا بندوبست کریں۔اس بچے کی عمر صرف 11 ماہ تھی۔

بندوق اور سائیکل لے کرعام شہریوں والے کپڑے دے دو

ان کے سٹور سے بھی فون کالز آنا شروع ہو گئیں، مایوس کارکنوں کو معلوم نہیں تھا کہ کیا کرنا ہے۔ نیلوفر نے اپنی آیا کو بلایا اور انھیںاپنے اور بچوں کے بیگ پیک کرنے کو کہا جب کہ وہ ملازمین کو ٹیکسیکروا کے ان کے گھروں کو بھیجا۔

جب وہ واپس آئیں تو وہ اپنے بچوں اور ان کا جو بھی سامان لے جا سکتی تھیں وہ لے کر اپنی والدہ ںکے گھر چلی گئیں لیکن شہر میں افراتفری کا راج تھا۔

’ان لمحات کے دوران میں نے ایسی چیزیں دیکھیں جو مجھے زندگی بھر پریشان رکھیں گی۔‘

’میں نے سائیکل پر پولیس کی وردی میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا جو دوسرے سے کہہ رہا تھا: ’میری بندوق اور سائیکل لے لو اور مجھے عام شہریوں والے کپڑے دے دو۔‘

’اس نے روتے ہوئے کہا کہ انھیں دھوکہ دیا گیا ہے۔‘

امریکہ نواز حکومت کے ساتھ کام کرنے والے ان لاکھوں لوگوں کے لیے طالبان کی اقتدار میں واپسی کا مطلب ان کی موت تھی۔

ایک ایسی حکومت جو چھوٹی سے چھوٹی غلطیوں کو بھی انتہائی ظالمانہ طریقوں سے سزا دیتی تھی۔

نیلوفر اپنی ماں کے گھر نہیں پہنچ سکیں اور انھیں اپنے بچوں کے ساتھ قریبی جگہ چھپنا پڑا جہاں سے وہ اپنے اندر موجود باغیانہ جذبے کی بدولت ان لمحات کی رپورٹنگ کرنے لگیں جو کچھ وہ اردگرد دیکھ رہی تھیں۔ ان مناظر کی رپورٹنگ کرنے کے لیے دنیا بھر کے صحافیوں کی فون کالز کا انھوں نے جواب دیا۔

’پولینڈ کے ایک صحافی کے ساتھ انٹرویو کے دوران اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انخلا کرنے والوں کی فہرستوں میں سے کسی میں شامل ہوں تو میں نے نفی میں جواب دیا۔‘

’اس نے مجھ سے وقت مانگا اور پھر دوبارہ فون کر کے بتایا کہ پولینڈ کا ایک طیارہ ہے شاید ہمیں ملک سے باہر لے جا سکتا ہے۔‘

ماں جانتی تھیں اب وہ مجھے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی

نیلوفر اور اس کے خاندان نے کابل کو پیچھے چھوڑ دیا اور انھیں یقین ہے کہ وہ کبھی واپس نہیں جا سکیں گے۔

نیلوفر کا کہنا ہے کہ صحافی نے اسے ایک واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا اور بتایا کہ جب انھیں کال موصول ہو گی تو ان کے پاس دو بیگ لے کر ایئرپورٹ جانے کے لیے صرف 24 گھنٹے ہوں گے۔

’میری ماں وہاں تھیں اور ان کے ہاتھ میں مقدس کتاب تھی۔ میری ماں کے چہرے پر موجود صاف لکھا تھا کہ وہ جانتی ہیں کہ اب وہ مجھے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گی اور یہ وہ آخری لمحے تھےجب میں نے اپنی ماں کو، اپنے گھر کو دیکھا۔‘

تین دن کے سفر کے بعد، یہ خاندان ایک نئی زندگی شروع کرنے کے لیے پولینڈ پہنچا۔ یہ ایک ایسا ملک تھا جس کے بارے میں وہ کچھ زیادہ نہیں جانتے تھے۔

افغانستان
Getty Images

انھوں نے کہا کہ ’یہاں ہمارے خاندان کا کوئی فرد نہیں اور یہ سب سے بڑی مشکل ہے۔ میرے بیٹے کو تو کابل بہت یاد آتا ہے۔

’وہ مجھ سے اپنی دادی کے بارے میں پوچھتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ وہ یہاں ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتیں۔‘

نیلوفر کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں۔ وہ صرف اپنے پیچھے رہ جانے والی ماں، ملازمین اور اپنی بہنوں کو بے انتہا یاد کر سکتی ہیں جو ان کے ساتھ یہاں نہیں آ سکے اور جو آج دوبارہ طالبان کے زیر سایہ زندگی گزار رہے ہیں۔

نیلوفر برسلز، جرمنی اور امریکہ کا دورہ کر چکی ہیں جہاں وہ اپنے ملک میں خواتین کے حقوق کے بارے میں انسانی حقوق کی کانفرنسوں میں اپنی آواز اٹھاتی ہیں اور ان پسماندہ خواتین کی مدد کرنے والی تنظیموں کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔

آج نیلوفر ایک صحافی ہیں اور اپنے آبائی وطن افغانستان میں خواتین کی صورتحال کے بارے میں بات کرتی ہیں۔

نیلوفر کے مطابق افغانستان میں ایک مرد اور عورت دونوں کی زندگی گزارنے کا ان کا تجربہ ناقابل فراموش ہے جس نے ان کی زندگی میں جو کچھ بھی ہوا اس کے لیے وہ ایک نعمت اورزحمت دونوں ہی رہے ہیں۔

’زحمت ان معنوں میں کہ اس نے مجھے توڑ کر چھوڑ دیا ہے۔ میں 100 فیصد عورت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی 100فیصد مرد۔ لیکن یہ ایک نعمت تھی کیونکہ میں دونوں اطراف کا تجربہ کرنے کے قابل تھی اور اس نے مجھے آج مضبوط عورت بنا دیا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’میں ایسی نہیں بننا چاہتی جس میں ایک شخص پیدا ہوا، چند سال زندگی گزاری اور بغیر کچھ اپنا حصہ ڈالے مر گیا۔‘

وہ اپنے والد کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’وہ آج بھی میرے دل میں میرے ساتھ ہیں انہی کی بدولت میں زندگی میں کچھ کر پائی۔‘

’میں اب بھی ان کا چہرہ دیکھ سکتی ہوں۔ انھوں نے مجھے ہمیشہ کہا کہ سیاست سے دور رہوں اور ہر جگہ جانے کے لیے ہمیشہ اچھائی کی تلاش میں رہوں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.