نامعلوم افراد نے پسنی سے ملنے والی وہیل مچھلی کا پیٹ کیوں چاک کیا؟

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ ’نامعلوم افراد نے مشین سے وہیل کے سر، پیٹ اوردم کو اس مقصد سے کاٹا کہ وہیل مچھلی کے پیٹ سے عنبرگریس نامی مادہ نکالا جا سکے۔ ‘

سنیچر کی شام پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں پسنی سے کچھ دور ساحل پر ایک مردہ وہیل ملی اور رواں برس یہ اپنی نوعیت کا دوسرا ایسا واقعہ ہے۔

یہ معاملہ اس وقت زیادہ پیچیدہ ہوا جب اگلے دن روشنی ہونے پر علم ہوا کہ رات کی تاریکی میں نامعلوم افراد نے اس وہیل کا پیٹ چاک کیا تھا۔

حکام کے مطابق بظاہر یہ عمل کرنے والے افراد ایک ایسے مخصوص مادے کی تلاش میں تھے، جو مارکیٹ میں کروڑوں روپے کے عوض بکتا ہے۔

یہ کون سی وہیل مچھلی ہے؟

میرین بائیالوجسٹ اسد اللہ غالب نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ یہ مچھلی پسنی شہر سے اندازاً 50 کلومیٹر دور شمال بندن کے علاقے سے مردہ حالت میں ملی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اس مچھلی کی لمبائی 43 فٹ ہے اور اس کا تعلق برائیڈز وہیل مچھلی کی نسل سے ہے جس کا شمار مقامی وہیلز میں ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جس وقت یہ مچھلی مردہ حالت میں نمودار ہوئی تو اس وقت صحیح اور سالم حالت میں تھی لیکن رات کو نامعلوم افراد نے اس مچھلی کا پیٹ چاک کیا۔‘

اسد اللہ غالب نے بتایا کہ ’جب یہ مچھلی پہلے نمودار ہوئی تو اس کا جسم ساحل پر پانی کے اندر ہی تھا لیکن رات میں سمندر کی لہروں نے اسے ساحل پر دھکیل دیا جہاں رات کے کسی پہر لوگوں نے اس کے جسم کو کاٹ ڈالا۔‘

انھوں نے بتایا کہ گذشتہ روز دن کو سمندرمیں ہونے کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس وہیل کے جسم پر کوئی زخم تھا یا نہیں جس سے اس کی ہلاکت کی وجوہات کا تعین کیا جا سکتا ’اور اب اس کے جسم کو کاٹنے کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا اور بھی مشکل ہے۔‘

میرین بائیالوجسٹ سدھیر بلوچ نے بتایا کہ ’وہیل مچھلی کی ایک مخصوص قسم کے پیٹ میں ایک مادہ ہوتا ہے جو بہت مہنگا بکتا ہے۔ اس کو نکالنے کے لیے وہیل کے پیٹ کو چاک کیا گیا‘ لیکن وہ مادہ برائیڈز وہیل میں نہیں ہوتا۔

وہ قیمتی مواد کونسا ہے اور کس وہیل مچھلی میں پایا جاتا ہے؟

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ ’نامعلوم افراد نے مشین سے وہیل کے سر، پیٹ اوردم کو اس مقصد سے کاٹا کہ وہیل مچھلی کے پیٹ سے عنبرگریس نامی مادہ نکالا جا سکے۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عنبرگریس سپرم وہیل میں پایا جاتا ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے برائیدز وہیل مچھلی کے جسم کو کاٹ کر اس کے ڈھانچے کو بھی ناکارہ بنا دیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’ورنہ یہ ڈھانچہ میوزیم میں رکھا جا سکتا تھا یا کسی تعلیمی ادارے میں ریسرچ کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔‘

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ ’عنبرگریس ایک نایاب مادہ ہوتا ہے جو ادویات، کھانے کے فلیورز اور پرفیومز میں استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ بین الاقوامی مارکیٹ میں کروڑوں روپے میں فروخت ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکویڈ سپرم وہیل مچھلیوں کی خاص خوراک ہوتی ہے جس کی چونچ بہت سخت ہوتی ہے اور اسے ہضم کرنے کے لیے وہیل کے جسم میں ایک مادہ پیدا ہوتا ہے۔‘

’اس مادے کے باوجود سکویڈ کی چونچ ہضم نہیں ہوتی اور مادہ مچھلی کی قے میں باہر آ جاتا ہے اور اسی مادے کو عنبرگریس کہا جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’عنبرگریس کا کچھ حصہ سپرم وہیل مچھلی کے جسم بھی رہ جاتا ہے جس کو پانے اور اس کے ذریعے کروڑوں روپے کمانے کے لیے اس کے پیٹ کو چاک کیا جاتا ہے۔‘

وہیل یا دیگر بڑی مچھلیوں کی ہلاکت کی وجوہات کیا ہیں؟

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ رواں سال بلوچستان کے ساحلی علاقوں سے مردہ حالت میں ملنے والی یہ دوسری وہیل مچھلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال مئی کے مہینے میں ضلع گوادر میں جیونی کے علاقے بندری سے ایک بلیو وہیل مردہ حالت میں ملی تھی جس کی لمبائی 36 فٹ تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ بندری میں مردہ حالت میں ملنے والی وہیل کو بھی کاٹنے کی کوششں کی گئی تھی لیکن مقامی انتظامیہ کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔

تاہم انھوں نے بتایا سنہ 2019 میں جیونی کے علاقے گنز میں جو وہیل مچھلی مردہ حالت میں ملی تھی اس کے جسم کو بھی عنبرگریس کے لیے کاٹا گیا تھا۔

اسداللہ غالب نے بتایا کہ برائیڈز وہیل ہمارے خطے کے سمندر کی مقامی وہیلز ہیں جو فیڈنگ کے لیے ساحل کا رخ کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ برائیڈز سمیت وہیل یا دیگر بڑی مچھلیوں کی غیرفطری ہلاکتوں کی دو بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ کسی بحری جہاز سے ٹکرا کر زخمی ہونا اور دوسری بڑی وجہ ریشمی جالوں میں پھنسنے کے باعث زخمی ہونا ہے۔

سدھیر بلوچ نے بتایا کہ رواں برس مئی میں جو وہیل مردہ حالت میں ملی تھی اس کے دم پر کٹ تھا جو کسی جہاز سے ٹکرانے کے باعث لگا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ وہیل مچھلیوں کو زیادہ تر بڑی لانچوں کے بڑے جالوں میں پھنسنے، بڑے جہازوں سے ٹکرانے یا موسمی تبدیلیوں کے وجہ سے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کا سمندر مچھلیوں کے حوالے سے آباد ہے اور یہاں بڑی مچھلیوں (Cetacean) کو سب سے زیادہ خطرہ ماہی گیروں کی لانچوں میں استعمال ہونے والے بڑے جالوں سے ہے۔‘

ان کے مطابق ان میں گھوسٹ نیٹ یعنی وہ جال شامل ہیں جن کو ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے ماہی گیر سمندرمیں جان بوجھ کر پھینک دیتے ہیں یا سمندری پتھروں یا مرجان میں پھنسنے کی وجہ سے ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض نایاب قسم کے کچھوؤں کی ہلاکت بھی ان ہی جالوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ بڑی مچھلیوں کو ان جالوں کی وجہ سے ہلاکتوں سے بچانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ماہی گیروں میں شعور اورآگاہی پیدا کی جائے وہ اپنے ناقابل استعمال جالوں کو سمندرمیں نہ پھینکیں بلکہ ان کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.