پنجاب پولیس کا پٹھان کوٹ حملے میں انڈیا کو مطلوب مولانا شاہد لطیف کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ڈسکہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے عسکریت پسند تنظیم کے مبینہ رکن شاہد لطیف کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
مولانا شاہد ہلاک
BBC

پاکستان کے صوبہ پنجاب کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ڈسکہ میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے عسکریت پسند تنظیم کے مبینہ رکن شاہد لطیف کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

بدھ کو ضلع سیالکوٹ میں نامعلوم حملہ آوروں نے پٹھان کوٹ حملے میں انڈیا کو مطلوب عسکریت پسند شاہد لطیف کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا۔

سیالکوٹ پولیس کے مطابق قتل کا واقعہ تحصیل ڈسکہ میں بدھ کی صبح فجر کی نماز کے دوران پیش آیا۔ فائرنگ کے اس واقعہ میں مولانا شاہد لطیف موقع پر ہلاک ہو گئے تھے جبکہ بعد میں ایک اور زخمی بھی ہلاک ہو گیا تھا۔

شاہد لطیف کا تعلق مبینہ طور پر شدت پسند تنظیم جیش محمد سے بتایا جاتا ہے۔

ان کے قتل کا مقدمہ پولیس مدعیت میں تھانہ صدر ڈسکہ میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا تھا۔

ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ انسپیکٹر جنرل پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے جمعے کے روز پریس کانفرنس میں کیا ہے۔

ڈاکٹر عثمان انور کا دعویٰ تھا اس واقعہ میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے تاہم انھوں نے کسی ملک کا نام نہیں لیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد پولیس اور انٹیلی جینس ادارے متحرک ہو گئے تھے جنھوں نے فوری طور پر شواہد حاصل کیے جس میں پتا چلا کہ ملزمان لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے لاہور، سیالکوٹ، قصور اور پاک پتن کی پولیس نے ایک ساتھ چھاپے مار کر گرفتاریاں کی تھیں۔

واقعے میں ملوث زیادہ تر ملزمان کی نہ صرف شناخت کر لی گئی ہے بلکہ گرفتاریاں بھی ہو چکی ہیں۔

پولیس کی جانب سے درج مقدمے میں منڈیگی گورائیہ مسجد نور میں تعینات گارڈ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 11 اکتوبر کی صبحتین نامعلوم نوجوان جن کی عمریں 20 سے 22 سال کے درمیان تھیں، مسجد میں نماز ادا کرنے کے بہانے سے داخل ہوئے تھے۔

پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جیسے ہی مسجد میں موجود افراد نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تینوں ملزمان نے فائرنگ کر دی جس سے مولانا شاہد لطیف کے علاوہ مولانا عبدالاحد اور ہاشم نامی افراد زخمی ہو گئے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مولانا شاہد لطیف نے موقع پر ہی دم توڑ دیا جبکہ باقی دو زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا تھا جہاں ہاشم نامی زخمی بھی ہلاک ہو گیا۔

اس کو ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ کہا جا سکتا ہے: پولیس

اس سے قبل، ڈی پی او سیالکوٹ محمد حسن نے مقامی میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’نامعلوم مسلح افراد مسجد میں آئے اور انھوں نے فائرنگ کی، یہ دہشتگردی کا واقعہ ہے۔ اسے ہم ٹارگٹ کلنگ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں مولانا شاہد اور ہاشم جانبر نہ ہو سکے اور عبدالاحد زخمی ہیں۔‘

ڈی پی او سیالکوٹکے مطابق ’موقع سے اہم شواہد بھی حاصل کیے ہیں جس پر ہم کام کر رہے ہیں۔ مولانا شاہد کو سکیورٹی تھریٹ بھی تھا اور وہ اس حوالے سے اپنا خیال بھی رکھتے تھے۔ تمام ادارے مل کر اس کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘

واقعہ کے بعد سکیورٹی کے حوالے سے ناکہ بندی کی گئی یا نہیں؟ میڈیا کے اس سوال پر ڈی پی او سیالکوٹ نے دعویٰ کیا کہ ’اس واقعے کی اطلاع ملتے ہی تمام فورس جائے وقوعہ پر پہنچی اور ہم ملزمان کو جلد ٹریس کرلیں گے۔‘

مولانا شاہد لطیف کون تھے اور انڈیا کو کیوں مطلوب تھے؟

مولانا شاہد لطیف کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تھا اور کئی سال سے وہ ڈسکہ کے علاقے میں مسجد نور مدینہ کے منتظم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔

مولانا شاہد لطیف کے حوالے سے حاصل معلومات کے مطابق انھوں نے سوگواروں میں بیوہ اور دو بچے چھوڑے ہیں۔

کشمیر کے امور پر نظر رکھنے والے صحافی ماجد نظامی کے مطابق50 سالہ مولانا شاہد لطیف نے انڈیا کی جیل میں طویل عرصہ گزارا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میری معلومات کے مطابق وہ 90کی دہائی کے اوائل میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر چلے گئے تھے۔ اس وقت ان کا تعلق کالعدم تنظیم حرکت المجاہدین سے تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ مولانا شاہد لطیف کچھ عرصہ تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حرکت المجاہدین کے ساتھ سرگرم عمل رہے۔

ماجد نظامی کے مطابق یہ حرکت المجاہدین کے ایک مشہور زمانہ رہنما سجاد افغانی کے گروپ میں تھے۔ سجاد افغانی افسانوی شہرت کے حامل رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں اس دوران مولانا شاہد وہاں گرفتار ہوگئے تھے اور انھیں انڈیا میں بنارس کی جیل میں رکھا گیا تھا۔

سنہ 1999 میں جب قندھار طیارہ ہائی جیکنگ کا واقعہ پیش آیا تو مذاکرات کے آغاز میں جن 40 لوگوں کی رہائی کے لیے نام دیے گئے تھے ان میں مولانا شاہد لطیف کا نام بھی شامل تھا۔تاہم وہ کبھی بھی صف اول کی قیادت میں شامل نہیں رہے تھےبلکہ ان کا شمار دوسرے درجے کی قیادت میں ہوتا تھا۔

ماجد نظامی کے مطابق بعد ازاں مذاکرات کے نتیجے میں صرف پانچ لوگوں کی رہائی ممکن ہوسکی تھی۔ جس میں مولانا شاہد لطیف شامل نہیں تھے۔

ماجد نظامی کے مطابق مولانا شاہد 2010 میں انڈیا کی جیل سے رہا ہو کر پاکستان آئے تھے تاہم رہائی کے بعد وہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کم ہی رہائش پذیر رہے تھے۔ اس وقت سے اب تک یہ ڈسکہ ہی میں مقیم تھے اور مسجد نور مدینہ کے منتظم بنے تھے۔

’پٹھان کوٹ واقعے میں ریڈ وارنٹ بھی جاری ہوا‘

مولانا شاہد ڈسکہ
BBC

ماجد نظامی کے مطابق کافی عرصہ سے بظاہر جیش محمد یا حرکت المجاہدین کے حوالے سے ان کی سرگرمیاں سامنے نہیں آرہی تھیں۔

تاہم 2016 میں انڈیا کی فضائیہ کے ایئر بیس پٹھان کوٹ پر ہونے والے جس حملے میں نو عسکریت پسند اورانڈین سکیورٹی فورسز کے چھ اہلکار مارے گئے تھے، اس سلسلے میں ان کے نام انٹرپول کے ذریعے ریڈ وارنٹ جاری ہوا تھا۔

17 گھنٹے تک جاری رہنے والے اس حملے سے متعلق انڈیا کا دعویٰ ہے کہ اس کی منصوبہ بندی میں مولانا شاہد لطیف بھی ملوث تھے۔

ماجد نظامی کے مطابق انڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اس حملے کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنے والے کچھ لوگوں کے ایک گروہ کی فون کالوں کے ذریعے سے نشان دہی کی جس میں مولانا شاید لطیف بھی شامل تھے۔ جس کے بعد ان پر انڈیا میں باقاعدہ چند مقدمے بھی درج ہوئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا شاہد لطیف کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو ابھی بھی انڈیا کو مطلوب تھے۔ انڈیا نے انٹر پول کی مدد سے ان کا ریڈ نوٹس بھی جاری کیا تھا۔

ماجد نظامی نے ان کے قتل کے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’لگ رہا ہے یہ ٹارکٹ کلنگ ہے۔‘

تنازعات کے حوالے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی فیض اللہ خان بھی اس حوالے سے ماجد نظامی کی رائے سے متفق ہیں۔

فیض اللہ خان کا کہنا تھا کہ مولانا شاید لطیف کا قتل چند دن قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے ایک اور کشمیری رہنما ابو قاسم کے قتل سے ملتا جلتا ہے اور تقریباً اسی طرح یہ قتل بھی ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مولانا شاہد لطیف کا نام انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی مختلف کارروائیوں میں لیا جاتا تھا۔

’مولانا شاہد لطیف آج کل محتاط تھے‘

نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے مولانا شاہد لطیف کے ایک قریبی عزیز کے مطابق ’مولانا شاہد آج کل محتاط تھے اور انھوں نے میل جول ختم کر دیا تھا۔‘

مولانا شاہد لطیف کےایک قریبی عزیز نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ کچھ ہفتوں سے مولانا شاہد لطیف بہت احتیاط کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنی سرگرمیاں بہت محدود کر دی تھیں۔

ان کے قریبی عزیز کے بقول ’ایک دو مرتبہ انھوں نے ذکر بھی کیا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔‘

قریبی عزیز کا کہنا تھا کہ وہ مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے تھے۔

فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ ’اس واقعے سے قبل جیش محمد کے ابراہیم مستری، حزب المجاہدین کے امتیاز عالم، لشکر طیبہ کے ابو قاسم اور اب جیش محمد ہی کے مولانا شاہد لطیف کی مسجد میں نماز کے وقت ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شاید نماز کا وقت اس لیے چنا گیا ہے کہ اس وقت وہ اپنا تحفظ نہیں کرسکتے اور شاید ان کے ذہن میں یہ بھی نہیں ہوگا کہ مسجد میں اس طرح نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔‘

ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ مجھ تک یہ معلومات پہنچی ہیں کہ اس سے پہلے کے واقعات میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جن کی تفصیلات ابھی سامنے نہیں لائی جا رہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.