ہوئی کایان: ایشیا کے امیر ترین شخص جن کے زوال سے چین کی معیشت کو خطرہ ہے

دنیا کی سب سے دولت مند رئیل سٹیٹ کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ ہوئی کایان کئی ہفتوں سے لاپتہ تھے۔ جمعرات کوایور گرینڈنے تفصیلات میں جائے بغیر ایک بیان شائع کیا جس میں کہا گیا ہے ’غیر قانونی کام میں ملوث پائے جانے اورجرائم کے الزام میں ہوئی کایان کو قانون کے مطابق کارروائیوں اور تحقیقات کا سامنا ہے۔‘
ہوئی کایان
Getty Images
ہوئی کایان ایور گرینیڈ کے بانی ہیں، جو دنیا کی سب سے زیادہ مقروض رئیل اسٹیٹ کمپنی ہے

چین کی سب سے بڑی پراپرٹی کمپنیوں میں سے ایک ایورگرینڈ کے بانی اور چیئرمین ہوئی کایان کبھی ایشیا کے امیر ترین شخص تھے۔

64 سالہ تاجر کو ژو جنیائین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ ہوئی کایان ایک معمولی گھرانے میں پیدا ہوئے اور بعدازاں ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے انھوں نے ایک بہت بڑی کاروباری سلطنت کی کمان سنبھالی۔

سنہ2017میں جب فوربس میگزین نے انھیں ایشیا کا امیر ترین شخص قرار دیا تو ان کی دولت کا تخمینہ 42.5 بلین ڈالر تھا۔

اب ان کی کمپنی پر 300 بلین ڈالر کا قرض ہے اور ان کی کمپنی سے مشتبہ مجرمانہ سرگرمیوں کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

چین کی بڑی رئیل سٹیٹ کمپنیوں میں سے ایک ایور گرینڈ کے بانی ہوئی کایان ان دنوں شدید مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ تعمیرات اور پراپرٹی کے کام میں یکتا اور ماضی قریب میں ایشیا کے سب سے امیر آدمی کی حیثیت سے پہچان رکھنے والے ہوئی کایان کو ’کنسٹرکشن میگنیٹ‘بھی کہا جاتا تھا۔

دنیا کی سب سے دولت مند رئیل سٹیٹ کمپنیوں میں سے ایک کے سربراہ ہوئی کایان کئی ہفتوں سے لاپتہ تھے۔ جمعرات کوایور گرینڈنے تفصیلات میں جائے بغیر ایک بیان شائع کیا جس میں کہا گیا ہے ’غیر قانونی کام میں ملوث پائے جانے اورجرائم کے الزام میں ہوئی کایان کو قانون کے مطابق کارروائیوں اور تحقیقات کا سامنا ہے۔‘

ہوئی کایان کون ہیں؟

ہوئی کایان سال 1958 میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن چینی رہنما ماو زے تنگ کی چین کی زراعت پر مبنی معیشت کو تیزی سے صنعتی بنانے کی پالیسی سے متاثر تھا۔ اس پالیسی کی وجہ سے چین میں قحط کی وجہ سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔

ہوئی کایان کے والد ایک لکڑ ہارے تھے۔ ہوئی کا یان صرف آٹھ ماہ کے تھے جب ان کی والدہ بیماری کے باعث انتقال کر گئیں۔ ان کی دادی نے ان کی پرورش چین کے وسطی صوبے ہینان کے ایک گاؤں میں کی۔

والدہ کی وفات کے بعد ان کی پرورش ان کے والد اور دادی نے کی جو گھر کا بنا ہوا سرکہ بیچ کر گزارا کیا کرتی تھیں۔ سنہ 2017 میں ایک تقریر میں ہوئی کایان نے کہا تھا کہ وہ اپنے بچپن میں زیادہ تر شکر قندی کے ساتھ روٹی کھاتے تھے۔

’اس وقت میری سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ دیہی علاقے سے باہر نکل کر نوکری تلاش کروں اور بہتر کھانا کھا سکوں۔‘

1982 میں یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد، انھوں نے اگلی دہائی تک سٹیل ٹیکنیشن کے طور پر کام کیا اور پھر جنوبی چین کے شہر گوانگزو میں ایک رئیل سٹیٹ پراپرٹی ڈویلپر کے سیلز مین کے طور پر کام کیا۔ یہیں پر انھوں نے 1996 میںایورگرینڈ کمپنی قائم کی۔

اس عرصے میں چین کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ کمپنی نے بھاری قرضے لیے اور بہت تیز رفتاری سے ترقی کی۔

رئیل اسٹیٹ کمپنی کی یہ کامیابی تھی کہ 2008 میں یہ فرم ہانگ کانگ میں مقبولیت پا گئی اور فوربس میگزین کے مطابق 2017میں وہ چین کے امیر ترین شخص بن گئے۔

اس دوران ہوئی نے دیگر شعبوں میں اپنی سرمایہ کاری کو بڑھایا۔ انھوں نے فٹ بال ٹیم (گوانگزو ایورگرانڈے) خریدی اور الیکٹرک گاڑیاں، بوتل بند پانی، سیاحت اور دیگر صنعتوں میں سرمایہ کاری کی۔

ہوئی نہ صرف ایک خوش قسمت آدمی کے طور پر ملک میں مشہور ہوئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک شاندار طرز زندگی گزارنے کے لیے بھی انھیں شہرت ملی۔

مقامی پریس نے انھیں چینی تاجروں کی نئی نسل کے نمائندے کے طور پر بیان کیا جنھیں اپنے پیشروؤں کے برعکس اپنی دولت ظاہر کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔

ہوئی کایان
Getty Images

’سب کچھ پارٹی، ریاست اور سماج نے دیا ہے ‘

فرانسیسی انویسٹمنٹ بینک نیٹیکسس کی چیف اکنامسٹ ایلیسیا گارسیا ہیریرو کہتی ہیں کہ ’وہ اس بات کی ایک مثال تھے کہ کوئی بھی جو سخت محنت کرتا ہے اور ہوشیار ہے وہ کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے۔‘

ہوئی کایان تین دہائیوں تک کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے رکن رہنے کے بعد 2008 میں پارٹی کی سیاسی مشاورتی کانفرنس کے رکن بنے۔ چین میں حکومتی عہدیداروں اور کاروباری رہنماؤں کا یہ خصوصی گروپ ملک کا اعلیٰ مشاورتی ادارہ بھی ہے۔

2012 میں ایک پارٹی کانفرنس میں ان کی ایک تصویر بھی وائرل ہوئی تھی جس میں وہ فرانسیسی لگژری برانڈ Hermès کی بنی ہوئی بکل بیلٹ پہنے ہوئے تھے۔

اس بیلٹ کا کلپ سونے کا تھا اور اسے سوشل میڈیا پر ’بیلٹ برادر‘ بھی کہا جاتا تھا۔

ہوئی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے چینی کمیونسٹ پارٹی کے رکن ہیں اور انھوںنے اپنی سیاسی وفاداری کے اظہار کے مواقعکبھی ضائع نہیں ہونے دیے۔

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ہوئی کایان نے چند سال قبل اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’ملک میں اصلاحات اور افتتاح کے بغیر ایور گرینڈ وہ نہیں ہوتی جو آج ہے۔ ایور گرینڈ کے پاس جو کچھ ہے، وہ سب کچھ پارٹی، ریاست اور سماج نے دیا ہے۔‘

2013 سے سی پی پی سی سی کی ایلیٹ 300 رکنی سٹینڈنگ کمیٹی کے رکن کے طور پر ہوئی نے حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے۔

ہوئی کایان
Getty Images

دوستوں نے مدد کی

سنہ 2009 میں ایورگرینڈ کو ہانگ کانگ سٹاک مارکیٹ میں درج کیا گیا تھا اور اس تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنی نے نو بلین ڈالر اکٹھے کیے تھے۔

مالیاتی منڈیوں کے تحقیقی پلیٹ فارم بانڈ سپر مارکیٹ کے جیکسن چن کے مطابق، ہوئی کایان کے ’زیادہ سے زیادہ منافع‘ کے نقطہ نظر نے ان کی کمپنی کی ترقی میں مدد کی۔

ایورگرینڈ تیزی سے ترقی کر رہی تھی، لیکن جب ہوئی نے رئیل سٹیٹ کے سب سے بڑے کاروباریوں سے دوستی کی اور کمپنی کو ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج میں درج کیا، تو اس کی ترقی کی رفتا ناقابل یقین ہو گئی۔

انھیں ان کے دوستوں سے بہت مدد ملی۔

ان کے دوستوں نے بڑی تعداد میں ایورگرینڈ کے حصص خریدے اور اس سے کمپنی کو بڑھنے میں مدد ملی۔

ایور گرینڈ نے بھاری قرضے لیے، بڑی تعداد میں گھر بنائے اور اپارٹمنٹس بھی بیچے جو کمپنی نے نہیں بنائے تھے۔ اس وقت ایورگرینڈ کے چین کے 280 شہروں میں 1300 سے زیادہ رئیل سٹیٹ منصوبے چل رہے ہیں۔

ہوئی کی کاروباری سلطنت صرف پراپرٹی کے شعبے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان کی کمپنی ویلتھ مینجمنٹ، الیکٹرک کاروں کی پیداوار، کھانے پینے کی اشیاء اور مشروبات کی پیداوار بھی کرتی ہے۔

کمپنی کا گوانگزو ایف سی میں بھی حصہ تھا، جو کبھی چین کا سب سے بڑا فٹ بال کلب تھا۔

چین
Getty Images

ہوئی کایان کا زوال اور چینی معیشت

سنہ 1996 میں قائم کی گئی کمپنی ایور گرینڈ بینکوں سے بھاری قرض لے کر ترقیکے رستے پر چلتی گئی جس کے باعث ہوئی کو ’قرضوں کا بادشاہ‘ بھی کہا گیا۔

تاہم 2021 میں جب کمپنی اپنے تجارتی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو اس نے عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچا دی۔۔۔ یہ تیزی سے رئیل سٹیٹ کے گہرے بحران کی ایک نشانی بن گئی۔

واضح رہے کہ رئیل سٹیٹ سیکٹر چین کی معیشت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہے۔

سنہ 2020 میں چین نے یہ کنٹرول کرنے کے لیے نئے قوانین بنائے کہ رئیل سٹیٹ ڈویلپر کمپنیاں کتنے فنڈز رکھ سکتی ہیں۔ نئے قوانین کے بعد کمپنی اپنا کاروبار جاری رکھنے کے لیے اپنے اثاثے بھاری رعایت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن اب کمپنی اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

اس معاشی بحران میں کمپنی کی مارکیٹ ویلیو 99 فیصد تک گر گئی ہے اور ہوئی کی دولت کم ہو کر صرف 3.2 بلین ڈالر رہ گئی ہے۔ ایورگرینڈ نے ہانگ کانگ سٹاک ایکسچینج میں تجارت روک دی ہے۔ ہوئی ان لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جن سے چینی حکومت تفتیش کر رہی ہے۔

اپنے ذمہ ایک بہت بڑا قرض کے بوجھ کے ساتھ، کمپنیاب سپلائرز اور قرض دہندگان کو ادائیگی کے لیے اثاثوں اور حصص کی فروخت کے ذریعے نقد رقم اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اگرچہ اس پر ملک سے باہر قرض دہندگان کی رقم واجب الادا ہے، لیکن ایور گرینڈکا زیادہ تر قرض عام چینی شہریوں کے پاس ہے، جن میں سے اکثر نے نامکمل گھروں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

کمپنی کا انتظام ایک ’رسک مینجمنٹ کمیٹی‘ کے ذریعے کیا جا رہا ہے جس پر ریاستی حکام کا غلبہ ہے جو تنظیم نو کے منصوبے کے ذریعے مکمل تباہی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ منصوبہ ناکام ہو جاتا ہے اور ایور گرینڈاپنے قرض دہندگان کے ساتھ ایک نئے معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے اپنے تمام آپریشنز کے خاتمے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اور ایورگرینڈ کے بانی ہوئی کایان کا پولیس کی تحویل میں ہونا اس خدشے کو ہوا دے ر ہا ہے کہفرم کی تنظیم نو کام نہیں کرے گی اور ان کا ’غائب ہونا‘ نا گزیر ہو جائے گا۔

بہت سے ماہرین چینی صدر شی جن پنگ کے مشترکہ خوشحالی پروگرام اور چین کی امیر اشرافیہ کے خلاف کریک ڈاؤن کے درمیان تعلق بھی دیکھتے ہیں۔ صدر جن پنگ کی اس پالیسی کا مقصد معاشی عدم مساوات کو کم کرنا ہے۔

مونٹانا یونیورسٹی کے مینسفیلڈ سینٹر میں چین کے امور کے ڈائریکٹر ڈیکسٹر رابرٹس کہتے ہیں کہ ’ہوئی اپنی عیش و عشرت اور اسراف طرز زندگی کی وجہ سے انتہائی دولت کی علامت ہے۔ وہ اپنے پرائیویٹ جیٹ میں پوری دنیا کا سفر کرتا ہے۔‘

رابرٹس کہتے ہیں کہ ’شی جن پنگ نے واضح کر دیا ہے کہ دولت کی عوامی نمائش، جیسا کہ ہوئی، ملک کی معیشت اور معاشرے کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘

رابرٹس کا خیال ہے کہ ہوئی ایک فطری ہدف تھا۔

اگرچہ چینی حکومت نے ابھی تک ہوئی کے خلاف تحقیقات پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ ملک میں عام لوگوں کی خوشحالی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

اخبار کے سابق ایڈیٹر انچیف، ہو شیجن نے لکھا کہ ’ایورگرینڈ کے بحران سے نمٹنے کے لیے اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ کسی بھی قیمت پر گھر خریدنے والوں کے نقصانات کو کم کیا جائے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’ہمیں اس معاملے سے بھرپور طریقے سے اور قانون کے مطابق نمٹنا چاہیے، عوام کو باخبر رکھنا چاہیے، اور یہ دیکھنا چاہیے کہ کس طرح کمپنی کے صارفین کی بہترین مدد کی جائے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.