دارا فیروز چنائے: وہ انڈین پائلٹ جو پاکستانی فوج سے بچ کر پیدل انڈیا پہنچنے میں کامیاب ہوا

سنہ 1965 کی جنگ کے آخری مرحلے میں پاکستان کی ایل-155 توپیں انڈین چوکیوں پر شدید فائرنگ کر رہی تھیں۔ دوسری جانب پاکستانی فضائیہ کے سپر جیٹ طیاروں نے مسلسل حملے کرکے انڈین فوج کی پیش قدمی روک رکھی تھی۔

یہ سنہ 1965 کی بات ہے جب چھستمبر کی رات پاکستانی فضائیہ نے سی-130 ہرکولیس طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے پٹھان کوٹ، ہلواڑہ اور آدم پور کے فضائی اڈوں پر 180 پیرا ٹروپرز(چھاتہ بردار فوجیوں) کو حملے کے لیے اتارا۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر فوجیوں کو انڈین فوج نے پکڑ لیا۔

ان میں سے 22 افراد ہلاک اور باقی پاکستان واپس جانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دوران پاکستان کے دو کینبرا طیاروں نے انڈیا کی آدم پور ایئربیس پر فضائی حملہ کیا۔ وہاں تعینات اینٹی ایئر کرافٹ گنوں نے ایک طیارے کو نشانہ بنایا جو ایئربیس کے بالکل باہر جا کر گرا۔

اس لڑاکا طیارے کے پائلٹ اور نیویگیٹر کو پکڑ کر آدم پور ایئربیس کے آفیسرز میس میں لایا گیا۔ جنیوا معاہدے پر عمل کرتے ہوئے ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی خواہش پر پنجابی ڈھابے سے تندوری چکن اور بٹر نان منگوایا گیا اور انھیں پیش کیا گیا۔

اگلے دن ان جنگی قیدیوں کو فوج کے حوالے کر دیا گیا۔ انڈین فوج کا مقصد پیش قدمی کرنا اور لاہور پر قبضہ کرنا تھا لیکن سنہ 1950 کی دہائی میں بنائی گئی اچھوگل نہر انڈین فوج کی پیش قدمی میں بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہی تھی۔

انڈین فوجیوں پر نہر کے پیچھے سے 1.55 ایم ایم ہوئٹزر توپوں سے مسلسل حملہ کیا جا رہا تھا۔ بالآخر انڈین فوج نے ان توپوں کو خاموش کرنے کے لیے انڈین فضائیہ کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔

انڈین فوجیوں کو پاکستانی سمجھنا

انڈین فضائیہ کے جنگی طیاروں نے ان توپوں کو بند کرنے کے لیے کئی پروازیں کیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ پاکستانی فوجیوں کی اینٹی ایئر کرافٹ گنوں اور مشین گنوں سے فائر کیے جانے والی گولیوں کی وجہ سے ان طیاروں میں سوراخ ہو جاتے۔

انڈین سرحد میں داخل ہوتے ہی ان کے انجن بھڑک اٹھتے اور انڈین پائلٹوں کو پیراشوٹ کا استعمال کرتے ہوئے نیچے کودنا پڑتا۔

انڈین فضائیہ کے مشہور پائلٹ گروپ کیپٹن دارا فیروز چنائے اپنی کتاب ’Escape from Pakistan a War Heroes Chronicle‘ میں لکھتے ہیں کہ ’کئی بار انڈین پائلٹوں کو اپنے ہی فوجیوں کے برے رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ کم از کم ایک انڈین آرمی کے سپاہی نے فضائیہ کے پائلٹ کے پیٹ میں خنجر گھونپ دیا اور ایک پائلٹ کے کندھے میں خود انڈین فوجی نے گولی مار دی تھی۔ یہ سب اس غلط فہمی کی وجہ سے ہوا کہ وہ پاکستانی پیرا ٹروپرز ہیں۔‘

اپنے ہی انڈین فلائٹ لیفٹیننٹ کی مارا پیٹ

اسی طرح کے ایک واقعے میں پاکستانی طیارہ شکن توپوں کی فائرنگ سے انڈین پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ اقبال حسین کے طیارے کا فیول ٹینک پنکچر ہو گیا۔

دارا فیروز چنائے لکھتے ہیں کہ ’ان کا میرے سکواڈرن سے تعلق تھا، وہ بمباری کے بعد انڈین سرحد کی طرف لوٹ رہے تھے۔ میں ان کا نمبر ٹو تھا، اس لیے میں ان کے پیچھے آ رہا تھا۔ جیسے ہی وہ بیس پر پہنچنے والے تھے کہ ان کے انجن سے شعلہ نکلنے لگا۔ وہ اپنے پیراشوٹ کی مدد سے آدم پور گاؤں کے قریب اترے۔ میں نے اوپر سے دیکھا کہ گاؤں والوں نے انھیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے، ان کے ہاتھ میں تلواریں تھیں۔ میں نے یہ اطلاع اوپر سے کنٹرول ٹاور کو بھیج دی۔‘

فوری طور پر فضائیہ کے دو فوجیوں کو موٹر سائیکل پر اس گاؤں بھیجا گیا لیکن جب تک وہ پہنچتے اقبال بری طرح زخمی اور بے ہوش ہو چکے تھے۔

اسی حالت میں انھیں ملٹری ہسپتال لے جایا گیا۔ وہ چار دن تک آئی سی یو میں رہے۔ جب گاؤں والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انھوں نے ان کے لیے خون کا عطیہ دیا۔

پاکستانی توپوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری

ایک سال بعد اسی اقبال حسین نے آدم پور سے جموں کے لیے جہاز کی اڑان بھری۔ خراب موسم کی وجہ سے طیارہ جموں کے قریب ایک چٹان سے ٹکرا گیا۔ 90 فیصد جلنے کے باوجود اقبال نے دو ساتھی مسافروں کو جلتے ہوئے جہاز سے باہر نکالا۔

جب وہ جلتے ہوئے طیارے سے تیسرے مسافر کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے تو طیارہ پھٹ گیا اور اس دھماکے میں اقبال حسین کی موت ہو گئی۔

سنہ 1965 کی جنگ کے آخری مرحلے میں پاکستان کی ایل-155 توپیں انڈین چوکیوں پر شدید فائرنگ کر رہی تھیں۔ دوسری جانب پاکستانی فضائیہ کے سپر جیٹ طیاروں نے مسلسل حملے کرکے انڈین فوج کی پیش قدمی روک رکھی تھی۔

دس ستمبر 1965 کو صبح سات بجے آدم پور ایئر بیس پر گراؤنڈ لائزن آفیسر نے انڈین فائٹر پائلٹوں کو ان کے اگلے مشن کے بارے میں بریف کیا۔ انھیں بتایا گیا کہ انھیں پاکستانی فوج کی توپیں تباہ کرنی ہیں جن کی حفاظت کے لیے چاروں طرف اینٹی ایئر کرافٹ گنیں رکھی گئی ہیں تاکہ انڈین طیارے ان پر حملہ نہ کر سکیں۔

سکواڈرن لیڈر ٹی پی ایس گل اس مشن کی قیادت کر رہے تھے۔ فلائنگ آفیسر دارا فیروز چنائے ان کے نمبر ٹو تھے۔ اس آپریشن کے ڈپٹی لیڈر اور نمبر تینفلائٹ لیفٹیننٹ روی کمار تھے۔ نمبر چار کی ذمہ داری فلائٹ لیفٹیننٹ گیگی رتناپارکھی کو سونپی گئی تھی۔

ٹرین پر حملے میں بم ختم ہو گئے

انڈین طیاروں نے دو جوڑوں میں چار اے سی ٹیکٹیکل فارمیشن میں پرواز کی۔ انھوں نے نیچے پرواز کرتے ہوئے توپیں ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ پھر انھوں نے ایک ٹرین کو دیکھا جو ہتھیاروں سے بھری ہوئی تھی۔ ان طیاروں نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا۔

جب یہ طیارے واپس لوٹ رہے تھے تو انھیں پاکستانی توپیں نظر آئیں جن کی تلاش میں وہ نکلے تھے۔ لیکن وہ ان پر بم نہیں گرا سکے کیونکہ ٹرین پر حملے میں ان کے تمام بم ختم ہو چکے تھے۔

واپس آنے کے بعد انھوں نے جی ایل او کو اپنی رپورٹ پیش کی۔ انھوں نے حکم دیا کہ جلدی سے کھانا کھانے کے بعد انڈین پائلٹ بموں کے ساتھ واپس اس جگہ چلے جائیں اور وہاں بمباری کریں۔

فلائنگ آفیسر دارا فیروز چنائے کھانے کے لیے میس پہنچے تو وہاں افسران کی بھیڑ لگی تھی اور کھانا پیش کرنے والوں کو سب لوگوں کو بیک وقت کھانا کھلانے میں مشکل ہو رہی تھی۔

دارا فیروز چنائے نے صبح کے مشن پر روانہ ہونے سے پہلے کچھ نہیں کھایا تھا۔ انھیں بہت پیاس لگ رہی تھی۔ اس پورے مشن کے دوران انھوں نے بہت پسینہ بہایا تھا، اس لیے ان کے جسم میں پانی کی بہت کمی تھی۔

انھوں نے ویٹر کو پانی لانے کو کہا لیکن وہ اتنا مصروف تھا کہ اس نے انھیں نظر انداز کر دیا۔ وہ کرو والے کمرے میں گئے جہاں فلپ راج کمار بیٹھے تھے۔ انھوں نے چنائے سے کہا: ’تم تھوڑا پانی پی لو۔ تم نہیں جانتے کہ تمہیں کب پانی ملے گا۔‘

دارا فیروز چنائے نے جلدی سے پانی کا ایک گلاس پیا اور کمرے سے باہر نکل آئے۔

دارا فیروز چنائے کے طیارے پر طیارہ شکن کا گولہ لگا

جب وہ بیس پر پہنچے تو دیکھا کہ ان کے ساتھی پائلٹ اپنے طیاروں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے فوراً اپنا فلائنگ گیئر پہنا اور اپنے طیارے کی طرف بڑھ گئے۔ چاروں طیارے ٹیک آف کر کے اسی علاقے میں پہنچے جہاں انھوں نے پاکستانی توپیں دیکھی تھیں۔

وہاں پہنچتے ہی پاکستان کی طیارہ شکن توپیں گرجنے لگیں۔ تیجا گل نے ریڈیو پر کہا: ’پولنگ اپ ٹارگٹ لفٹ، ٹین او کلاک‘۔ دو سیکنڈ بعد دارا فیروز چنائے نے اوپر جا کر ریڈیو پر پیغام دیا کہ ’نمبر 2، کنٹیکٹ ٹارگٹ نائن او کلاک رولنگ ان۔‘

اسی وقت چنائے نے اپنی سیٹ کے نیچے ایک زور دار دھماکہ محسوس کیا۔ دارا فیروز چنائے لکھتے ہیں: ’دھماکہ ایسا تھا جیسے کسی خچر نے زور سے لات ماری ہو۔ اسی لمحے میرا انجن سیز ہو گیا اور انجن میں فائر کی وارننگ لائٹ جلنے لگی۔ میرے جہاز کی رفتار تیزی سے صفر پر گر گئی۔ میرا کاک پٹ دھوئیں سے بھر گیا۔ اور مجھے اپنے پیچھے آگ کی تپش محسوس ہونے لگی۔‘

انھوں نے پیغام بھیجا: ’آئی ایم ہٹ، انجن فلیمڈ آؤٹ۔‘ سیکنڈوں میں دھواں اور گرمی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ نہ تو جہاز کا آلہ پینل دیکھ سکے اور نہ ہی باہر کی کوئی چیز۔ جب تھوڑا سا دھواں صاف ہوا تو انھوں دیکھا کہ انجن بند ہو چکا ہے اور پیچھے سے دھواں اور شعلے دوبارہ کاک پٹ میں داخل ہونے لگے ہیں۔

پیراشوٹ سے گنے کے کھیت میں چھلانگ لگا دی

دارا فیروز چنائے کے طیارے میں 2x68 ملی میٹر کے راکٹ رکھے تھے اور ان کا فیول ٹینک تین چوتھائی بھرا ہوا تھا۔ ایسے میں اگر ان کا طیارہ 2000 فٹ سے نیچے گرتا تو ان کی موت یقینی تھی۔ ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر دارا چنائے نے ایجیکشن بٹن دبا دیا۔

چنائے لکھتے ہیں ’جب میں نیچے آ رہا تھا تو مجھے رائفل کی گولیوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ درمیان میں طیارہ شکن توپ کے گولے بھی میرے پاس سے گزر رہے تھے۔ بہت سی گولیاں میرے پیراشوٹ سے گزر گئیں۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

یہ جنیوا کنونشن کی شرائط کی خلاف ورزی تھی کیونکہ طیارہ مار گرائے جانے کے بعد پائلٹ کا پیراشوٹ ہی اس کی بقا کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’خوش قسمتی سے میں گنے کے کھیت میں گرا، گنے کی کٹائی نہیں ہوئی تھی اس لیے مجھے چھپنے کا موقع مل گيا، میں نے نیچے گرتے ہی پاکستانی فوجیوں کی چیخیں اور گالیاں اور خودکار ہتھیار سے چلائی جانے والی گولیوں کی آوازیں سنیں۔‘

ایک گڑھا کھود کر نقشے کو چھپایا

دارا فیروز چنائے نے گنے کے کھیت میں ہرن کی طرح ٹیڑھے میڑھے انداز میں بھاگنا شروع کیا۔ خوف نے ان کے قدموں کو مزید تیز کر دیا۔ انھیں فوراً احساس ہوا کہ پاکستانی فوجی ان سے مشرق کی طرف انڈین سرحد کی طرف بھاگنے کی توقع کریں گے، لہٰذا اس کے بجائے انھوں نے مغرب کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔

آہستہ آہستہ گاڑیوں کی آوازیں اور ان کا تعاقب کرنے والے پاکستانی فوجی رک گئے۔

دارا فیروز چنائے لکھتے ہیں کہ ’میں پھر بھی کھیتوں کے درمیان دوڑتا رہا اور بڑے کھیتوں میں گنے کی آڑ میں اپنے آپ کو چھپاتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی دوڑ کا رخ شمال کی طرف پھیر دیا۔ اور دوڑتے رہنے کے بعد میں نے گنے کے ایک کھیت میں آرام کیا، میں تھوڑی دیر کے لیے زمین پر لیٹ گیا اور اپنی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔‘

دارا فیروز چنائے یاد کرتے ہیں کہ ’میری پوری کوشش تھی کہ میں ذرا بھی حرکت نہ کروں۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں پکڑا گیا تو میرے ساتھ کتنا برا سلوک کیا جائے گا۔ میں نے دعا کرنا شروع کر دی کہ جلد اندھیرا ہو جائے۔ جیسے ہی اندھیرا ہوا، میں نے ایک گڑھا کھودنا شروع کر دیا اور اس میں اپنا نقشہ، ریڈار کی توثیق کرنے والی شیٹ اور دوسری چیزیں دفن کر دیں، جو دشمن کے لیے تھوڑی بہت مددگار ہو سکتی تھیں۔

میں نے اپنے چہرے پر کیچڑ ملا۔ میرا جی سوٹ مکمل طور پر پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔ یہ گیلا تھا اور کالا نظر آ رہا تھا کیونکہ وہ مٹی سے اٹا ہوا تھا۔‘

تھکاوٹ کے باوجود نہر پار کی

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد آخرکار دارا فیروز چنائے مشرق کی طرف بڑھنے لگے۔ تب تک اندھیرا ہو چکا تھا۔ دارا فیروز چنائے لمبی گھاس اور گنے کے کھیتوں سے گزرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ انھوں نے جان بوجھ کر آبادی اور لوگوں سے گریز کیا کیونکہ اگر کوئی شخص یا کتا انھیں دیکھ لیتا تو وہ خطرے کی گھنٹی بجا دیتے۔

دارا فیروز چنائے کو احساس ہوا کہ وہ صبح صرف ایک کپ چائے پی کر چلے تھے اور پچھلے 20 گھنٹوں سے انھوں نے ایک گھونٹ بھی پانی نہیں پیا تھا۔

وہ بے حد پیاسے تھے اور تھکاوٹ کی وجہ سے ان کی رفتار سست ہو رہی تھی۔ گرمی، گھبراہٹ اور مسلسل بھاگنے کی وجہ سے وہ بری طرح پانی کی کمی کا شکار ہو گئے تھے۔

انھیں اندازہ تھا کہ اگر وہ تھکاوٹ کی وجہ سے بے ہوش ہو کر پاکستانیوں کے ہاتھوں لگ گئے تو ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جائے گا۔

عین ممکن ہے کہ دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ انھوں نے پہلے کمر بھر گہرے پانی والی ایک نہر عبور کی اور پھر تیز بہنے والی اچھوگل نہر کو تیر کرعبور کیا۔

انڈین فوجیوں نے کہا ’ہینڈز اپ‘

دارا فیروز چنائے لکھتے ہیں کہ ’جیسے ہی میں امرتسر-بٹالہ سڑک پر آیا، مجھے لگا کہ میں نے انڈیا-پاکستان کی سرحد عبور کر لی ہے۔ پھر میں نے ایک گاؤں کے باہر ایک کنواں دیکھا۔ میں اس کی طرف بھاگا۔ میں نے ایک بالٹی لی۔ کنویں سے پانی نکالا، کافی پانی پینے کے بعد باقی پانی اپنے سر پر ڈالا، پیاس بجھانے کے بعد میرا اعتماد بحال ہوا اور میں امرتسر بٹالہ سڑک پر جنوب کی طرف چلنے لگا۔‘

وہ جان بوجھ کر مین روڈ سے گریز کر رہے تھے۔ تب تک صبح ہو چکی تھی۔ اسی درمیان انھیں تمل زبان میں آوازیں سنائی دیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’مجھے معلوم تھا کہ ہمارے سپاہیوں نے فلائٹ لیفٹیننٹ وجے مایا دیو اور بو پھاٹک کو کیسے بندوق کی سنگین یعنی بندوق کے سرے پر چھرا گھونپ دیا تھا۔ اس لیے میں نے ہمت کے ساتھ زور سے چیخا، ’وہاں کون ہے؟‘ میں نے ان کے چہروں کے تاثرات پڑھے۔ گندے، کیچڑ میں اٹے کپڑوں میں مجھے دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے۔ لیکن ان میں سے ایک نے فوراً میری طرف رائفل کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اپنے ہاتھ اوپر رکھو۔‘ میں گھٹنوں کے بل آ گیا اور اپنے ہاتھ اٹھالیے۔‘

گولی چنائے کے سر کے قریب سے گزری

انڈین فوجیوں نے دارا فیروز چنائے سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔ انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ انڈین فضائیہ کے پائلٹ ہے۔ دارا فیروز چنائے نے ان سے کہا کہ وہ اپنے افسر کو بلائیں۔ کچھ ہی دیر میں ایک صوبیدار میجر جیپ چلاتا ہوا وہاں پہنچا۔ اسے بھی دارا فیروز چنائے کی باتوں پر یقین نہیں آیا۔

انھوں نے دارا فیروز چنائے کو جیپ کی پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔ دارا فیروز چنائے لکھتے ہیں کہ ’جیسے ہی میں جیپ پر بیٹھا، ایک انڈین سپاہی جو مجھے کوور کر رہا تھا، وہ بھی جیپ پر چڑھ گیا۔ غلطی سے اس کی انگلی اس کی رائفل کے ٹرگر پر لگ گئی۔ گولی اس کی رائفل سے نکل کر میرے سر سے تقریباً ایک انچ کے فاصلے سے نکل گئی۔ اس سپاہی کے سر پر صوبیدار میجر کے تھپڑ کی آواز گولی کی آواز سے زیادہ تیز تھی‘۔

انھیں کپتان کے پاس لے جایا گیا، کپتان نے ان سے ان کا شناختی کارڈ مانگا۔ دارا فیروز چنائے نے کہا کہ جب وہ کسی بھی مشن پر جاتے ہیں تو اپنے ساتھ کوئی شناختی کارڈ نہیں لے جاتے۔

دارا فیروز چنائے سے سوال و جواب

کیپٹن نے فلائٹ لیفٹیننٹ دارا فیروز چنائے کے یونٹ اور ان کے کمانڈر کے مقام کے بارے میں سوالات پوچھے۔ دارا فیروز چنائے نے اسے بتایا کہ گروپ کیپٹن جاک لائیڈ ان کے سٹیشن کمانڈر ہیں۔

دارا فیروز چنائے لکھتے ہیں کہ ’پھر کیپٹن نے پوچھا، کیا آپ کسی کہائی کو جانتے ہیں؟ میں نے جواب دیا، ہاں، وہ میری یونٹ میں فلائٹ لیفٹیننٹ ہیں۔ ان کا اگلا سوال تھا کہ ’کیا وہ موٹے اور مونے (داڑھی موچھوں کے بغیر) سکھ ہیں؟‘ میں نے جواب دیا، نہیں، وہ دبلے پتلے داڑھی والے سکھ ہیں۔ یہ سن کر ان کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ انھوں نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا، ہائے، میں کیپٹن کہائی ہوں، فلائٹ لیفٹیننٹ کہائی کا کزن، اس کے بعد انھوں نے مجھے ناشتہ کرایا اور کافی پیش کی۔‘

دارا فیروز چنائے کو خصوصی خدمات کا تمغہ ملا

نہانے اور فریش ہونے کے بعد کیپٹن کہائی نے انھیں جیپ میں بٹھایا اور ایئر فورس سینٹر امرتسر کی طرف روانہ کیا۔ چنائے اتنے تھکے تھے کہ جیسے ہی جیپ چلنے لگی وہ گہری نیند میں چلے گئے۔ ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب جیپ ایئر فورس سنٹر کے گیٹ سے داخل ہو رہی تھی۔

پھر اچانک پاکستان کے چار سیبر جیٹ طیاروں نے فضائیہ کے مرکز کے ریڈار یونٹ پر حملہ کر دیا۔ بہت سی مشکلات سے بچنے کے بعد دارا فیروز چنائے کا بم حملے میں مرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ انھوں نے بھاگ کر بموں سے بچنے کے لیے بنکر میں پناہ لی۔

امرتسر کے سٹیشن کمانڈر نے انھیں اپنی جیپ میں آدم پور کے ایئر فورس بیس پر اتارا۔

دارا فیروز چنائے افسروں کی میس میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھیوں کے چہرے قابل دید تھے۔ اگلے دن ان کا میڈیکل ٹیسٹ ہوا اور انھیں دوبارہ پرواز کے لیے فٹ قرار دیا گیا۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان 23 ستمبر کو جنگ بندی ہوئی تھی۔ اس وقت چنائے کی انڈیا واپسی کی خبر کو پوشیدہ رکھا گیا تھا۔

جنگ کے خاتمے کے تین ماہ بعد یکم جنوری سنہ 1966 کو اس وقت کے فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل ارجن سنگھ نے فلائنگ آفیسر دارا فیروز چنائے کو پاکستان سے فرار ہونے اور بحفاظت انڈیا آنے پر ’وششٹ سیوا میڈل‘ سے نوازا۔

دارا فیروز چنائے بعد میں انڈین فضائیہ میں گروپ کیپٹن کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ فی الحال وہ اپنی بیوی مارگریٹ کے ساتھ بنگلور میں رہ رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.