کشمور: احتجاج میں یقین دہانی کے بعد ڈاکوؤں سے ہندو برادری کے یرغمالیوں کی رہائی کیسے ممکن ہوئی؟

سندھ کے مختلف شہروں میں ضلع کشمور سے ہندو برادری کے پانچ افراد کے اغوا کے خلاف دیے جانے والے دھرنوں کے نتیجے میں تین افراد بحفاظت گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ تاہم ہندو کمیونٹی کے تین مغویوں کی بازیابی کسی پولیس آپریشن کے نتیجے میں نہیں بلکہ مقامی سرداروں کی یقین دہانیوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔

’مہربانی کر کے ہمارا بچہ بازیاب کروا دیں، جب تک ہمارا بچہ واپس نہیں آئے گا ہم واپس نہیں جائیں گے۔۔۔ مہینے میں ہماری حالت کیا ہو گئی ہے ساگر کے والد اور بیگم کی حالت دیکھ لیں۔‘

رشی بائی سندھ کے سرحدی شہر کشمور میں احتجاجی دھرنے میں شریک ہیں جو کشمور سے اغوا کیے گئے پانچ افراد کی بازیابی کے لیے کیا گیا ہے۔

ان میں سے تین افراد گذشتہ شب رہا ہو گئے ہیں تاہم رشی بائی کے بیٹے ساگر کمار اور سات سالہ پریانکا ابھی رہا نہیں ہو سکے اور یہ احتجاج فی الحال ان کے لیے جاری ہے۔

دھرنے میں رشی بائی جب انتظامیہ اور سیاست دانوں کو اپیل کر رہی تھیں تو اس دوران کچھ لوگوں نے گرونانک کی تصویر بھی اٹھا رکھی تھی۔ ساگر کمار کی والدہ نے یہ تصویر ہاتھ میں لے کر کہا کہ ’ہم اپنے پیر کی تصویر لے کر آئے ہیں اس کے صدقے ہمارا بچہ واپس کر دیں۔‘

رشی بائی کی آواز سُن کر دھرنے میں شریک کئی لوگ آنسو بہاتے رہے اور خواتین انھیں تسلی دیتی رہیں۔

26 سال ساگر کمار کو تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل اغوا کیا گیا تھا۔ وہ کشمور شہر میں ایک کیبن چلاتے تھے، ان کے ساتھ مکھی جگدیش، ان کا سات سالہ بیٹا جئے دیپ اور کشمور ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر منیر نائچ بھی اغوا کیے گئے تھے۔

کشمور سے کراچی تک دھرنے

شمالی سندھ کے اضلاع کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور شکارپور ایک طویل عرصے سے ڈاکوؤں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں جس میں اغوا کے علاوہ لوگوں کو ’ہنی ٹریپ‘ کر کے بھی اغوا کیا جاتا ہے۔

کراچی میں اتوار کے روز کشمور کے یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے تین تلوار کلفٹن پر دھرنا دیا گیا جس کا انتظام ’مائینارٹی رائٹس مارچ‘ نے کیا تھا۔ اس دھرنے کے شرکا نے کچے میں فوجی آپریشن کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

کشمور اور کندھ کوٹ میں ہندو کمیونٹی نے احتجاجی دھرنے دیے اور دونوں شہروں میں ہڑتال بھی کی گئی۔

یہ دھرنے گذشتہ چار روز سے جاری تھے اور اس میں سندھی قوم پرست جماعتوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی بھی شرکت رہی۔

ان دھرنوں اور احتجاج کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے اور اب یہ حیدرآباد، گھوٹکی، سکھر، پنو عاقل اور عمرکوٹ سمیت ایک درجن سے زائد چھوٹے بڑے شہروں میں کیے جا رہے ہیں۔

کشمور میں اس دھرنے سے سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ نے خطاب کرتے ہوئے کچے میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پولیس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اغوا کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا ہے۔۔۔ کچے اور پکے کے تمام مجرموں کے خلاف آپریشن کر کے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔‘

یقین دہانی اور بازیابی

کراچی میں اتوار کی شام دیے گئے دھرنے سے کشمور کندھ کوٹ ضلع سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر میر شبیر بجارانی نے خطاب کیا اور مظاہرین کو یقین دہانی کروائی کہ 12 گھنٹوں میں یرغمالی ڈاکٹر منیر نائچ، مکھی جگدیش، جئے دیپ اور ساگر کمار کو رہا کروا دیا جائے گا۔

بارہ گھنٹے تو نہیں البتہ 36 گھنٹے کے بعد ڈاکٹر منیر، مکھی جگدیش اور ان کا بیٹا رہا ہو کر اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔

شبیر بجارانی کی اس یقین دہانی پر سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ ’کیا سرداروں کے ڈاکوؤں کے ساتھ تعلقات ہیں؟‘

سابق صوبائی وزیر شبیر بجارانی نے کسی بھی معاہدے یا سرپرستی کو مسترد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایس ایس پی نے جو بتایا تھا اس کے مطابق ہی انھوں نے مظاہرین کو آگاہی دی تھی کہ بارہ گھنٹے میں مغوی رہا ہو جائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’کشمور اور دیگر شہروں میں ہڑتال اور احتجاج تھا جس کی وجہ سے پولیس دباؤ میں تھی۔‘

سابق صوبائی وزیر سے جب سوال کیا گیا کہ اس سے قبل آپ کی جماعت پی پی پی کی حکومت تھی تو تب پولیس کیوں اس قدر کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’انھوں نے آئی جی سندھ اور وزیراعلیٰ سے ملاقات کر کے انھیں ان لوگوں کے نام بھی دیے تھے جو ان وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔‘

پولیس ایکشن کے بغیر رہائی

کشمور سے اغوا کیے گئے ڈاکٹر منیر نائچ، مکھی جگدیش اور ان کے بیٹے جئے دیپ بازیاب تو رہا ہو گئے لیکن ان کی بازیابی کے لیے پولیس کے جانب سے کسی آپریشن یا مقابلے کی کوئی خبر نہیں آئی۔

ایس ایس پی امجد شیخ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پولیس کئی دنوں سے ڈاکوؤں کے تعاقب میں تھی، یہ بازیابی اسی کا نتیجہ ہے۔‘ تاہم وہ یہ واضح نہیں کر سکے کہ کس طریقے سے یہ بازیابی عمل میں لائی گئی۔

ایس ایس پی امجد شیخ شکارپور میں تعینات ہیں جبکہ کشمور کندھ کوٹ ضلع کا اضافی چارج بھی ان کے پاس ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب انھوں نے چارج سنبھالا تو اس وقت 52 افراد اغوا تھے جن میں سے 42 کو وہ بازیاب کروا چکے ہیں جن میں سات بچے بھی ہیں۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ اس عرصے میں انھوں نے بچوں کو اغوا کرنے والا ایک گینگ کے کارندے بھی پکڑے ہیں۔

سوشل میڈیا پر پولیس پر لگنے والے الزامات کو ایس ایس پی امجد شیخ نے مسترد کیا اور کہا کہ ’اگر تاوان کا معاملہ بھی ہوتا ہے تو وہ ڈاکوؤں اور یرغمالی خاندان کے درمیان میں رہتا ہے اس میں پولیس کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔‘

’اگر یرغمالیوں کے رشتے داروں کے پاس اتنی رقم ہوتی تو یقیناً وہ پہلے ہی انھیں رہا کروا لیتے۔ دو سے ڈھائی ماہ کا انتظار نہیں کرتے۔‘

کشمور کے صحافی ممتاز سولنگی کہتے ہیں کہ ’پولیس ڈاکوؤں اور ان کے سہولت کاروں کے کئی عزیز و اقارب گرفتار کر لیتی ہے اور جب دباؤ ڈالنا ہوتا ہے تو پھر ڈیل کی جاتی ہے، جس میں کچھ رہائی یہاں سے تو کچھ وہاں سے ہوتی ہے۔‘

ان کے مطابق ’اس میں تاوان کا عمل دخل بھی رہتا ہے، مکھی اور ان کے بیٹے کی تاوان کے لیے ڈیل آخری مراحل میں تھی۔‘

کشمور دھرنے اور سندھ میں اغوا کی وارادتیں سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث رہیں۔

ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر خالد حیسن کوری لکھتے ہیں کہ ’اگر ڈاکو سرداروں کے پالے ہوئے ہیں تو پولیس کا قصور ہے، اگر ڈاکو پولیس کے پالے ہوئے ہیں تو پھر بھی پولیس کا قصور ہے لیکن اگر ڈاکو پولیس اور سردار ساتھ میں مل کر پال رہے ہیں تو بھی پولیس کا ہی قصور ہے۔‘

صحافی امداد سومرو لکھتے ہیں کہ ’ڈاکوؤں کے چنگل سے بازیاب ہونے والا تاجر اور معصوم بچہ سندھ پولیس کے کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہیں۔‘

’پولیس جو کام عرصہ دراز سے نہیں کروا سکی وہ دو دن کے عوامی دھرنے سے کس طرح ہو گیا۔ کس طرح مغویوں کو پولیس اور سردار واپس لے آئے؟‘

انھوں نے سوال کیا کہ ’مغوی واقعی ڈاکوؤں کے پاس تھے، کسی سردار کے چنگل میں تھے یا ڈاکووں کے نام پر پولیس کے پاس تھے؟‘

ایڈووکیٹ شہاب اوستو لکھتے ہیں کہ ’پورا سندھ سراپا احتجاج ہے لیکن ڈاکوؤں کے سرپرستوں کے سیاسی محافظ طاقت کی دوڑ میں مصروف ہیں۔‘

شہنیلا زرداری لکھتی ہیں کہ ’جب ایک احتجاج سے اتنی جلدی بازیاب ہو سکتے تھے تو پہلے کیوں نہ ہوئے؟ کیا پولیس کو حرکت میں لانے کے لیے احتجاج ضروری ہے؟ پولیس نے آخر کیوں کشمور کے رہنے والوں کو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔‘

sindh police
Getty Images

ایک اور مہینہ لگتا

بازیاب ہونے والے مکھی جگدیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان کی بازیابی پولیس مقابلے کی وجہ سے ہوئی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں بلوچستان میں کہیں منتقل کیا جا رہا تھا تو پولیس کا ڈاکوؤں کے ساتھ مقابلہ ہو گیا اور ڈاکو انھیں چھوڑ کر فرار ہو گئے۔

’وہاں پولیس اہلکار نے کہا کہ گھبراؤ نہیں ہم پولیس والے ہیں اور مجھے اپنے ساتھ لے آئیں لیکن میری آنکھوں پر پٹی بندھی رہی۔‘

تاہم مکھی جگدیش نے گذشتہ شب رہائی کے بعد دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے اس کے برعکس بات بتائی تھی۔

تب ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکوؤں نے انھیں کہا کہ کراچی تین تلوار سے لے کر کشمور تک احتجاج ہے اس کی وجہ سے تمھیں چھوڑ رہے ہیں جس کے بعد نو بجے وہ روانہ ہوئے اور کوئی دو ڈھائی گھنٹے سفر کے بعد انھیں چھوڑا گیا۔‘

بقول ان کے ’عوام کے احتجاج کی وجہ سے‘ انھیں جلد چھوڑا گیا ورنہ ایک ڈیڑھ ماہ مزید لگ سکتا تھا۔

ڈاکوؤں نے سوشل میڈیا پر مکھی جگدیش اور ساگر کمار کی ویڈیوز بھی شیئر کی تھیں جن میں زنجیروں میں بندھے ہوئے دونوں افراد پر تشدد کیا جا رہا تھا۔

تاہم مکھی جگدیش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ’رشتے داروں پر دباؤ ڈالنے کے لیے ڈاکوؤں نے یہ ڈرامہ کیا تھا، انھیں بہت اچھی طریقے سے رکھا گیا تھا اور ان کا خیال رکھا جاتا تھا وہ ماس مچھلی نہیں کھاتے اس لیے ان کے لیے دال بنائی جاتی تھی۔‘

مکھی جگدیش کے بیٹے جئے دیپ نے جب کہا کہ ’کھانے میں روکھی روٹی دی جاتی تھی‘ تو مکھی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’نہیں ایسا نہیں تھا جب وہ گوشت یا مچھلی بناتے تو روکھی روٹی دی جاتی تھی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.