پنڈی بھٹیاں بس حادثہ: ’بھتیجی کی کال آئی حادثہ ہو گیا، جب وہاں پہنچا تو آگ ہی آگ تھی، ایک قیامت تھی‘

کراچی سے اسلام آباد جانے والی بس کو فیصل آباد موٹروے پر پنڈی بھٹیاں کے قریب خوفناک حادثہ پیش آیا ہے جس میں کم از کم19 افراد ہلاک جبکہ 14 زخمی ہو گئے ہیں۔

’اچانک بس کے اگلے حصے میں آگ بھڑک اٹھی۔ اور صرف ایک سیکنڈ، ایک سیکنڈ میں ہی بس کے چاروں طرف آگ لگ گئی تھی، میری ساتھ والی سیٹ پر میرا دوست بیٹھا ہوا تھا، وہ چیخنے لگا کہ آگ لگی ہے۔ شیشہ توڑو۔ میں نے اپنے بازو سے شیشہ توڑنا شروع کیا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کیسے باہر نکلوں کہ کسی بندے نے مجھے زور سے دھکا دیا اور میں بس سے گر گیا۔‘

امداد علی سکھر سے اسلام آباد آ رہے تھے اور وہ اس بس میں سوار تھے جو آج علی الصبح پاکستان کے صوبہ پنجاب کے علاقے پنڈی بھٹیاں میں خوفناک حادثے کا شکار ہوئی ہے اور جس میں اب تک 19 افراد ہلاک جبکہ 14 افراد زخمی ہیں۔

پولیس کے مطابق یہ بس حادثہ اس وقت پیش آیا جب بس فیصل آباد موٹروے پر پنڈی بھٹیاں انٹرچینج کے قریب ایک سوزوکی پک اپ وین سے ٹکرائی جس میں ڈیزل کے ڈرم رکھے ہوئے تھے۔

پولیس کے مطابق بس میں 35 سے زائد مسافر سوار تھے۔ حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پنڈی بھٹیاں منتقل کیا گیا ہے جبکہ وہ مریض جن کی حالت تشویشناک ہے انھیں فیصل آباد لے جایا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد بس میں آتشزدگی کے باعث ’ناقابلِ شناخت‘ ہیں۔

اس بس حادثے میں صرف وہی افراد زندہ بچ سکے ہیں جنھوں نے بس کی کھڑکیاں توڑ کر باہر چھلانگ لگائی۔

’بس میں ہر طرف صرف آگ تھی‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے خوش قسمت مسافر امداد علی بتاتے ہیں کہ بس میں بہت سے لوگ سو رہے تھے۔

’ڈرائیور نے زور سے بریک لگائی تو لوگ اپنی سیٹوں سے ٹکرائے اور جاگ گئے۔ ہر طرف شور اور چیخیں تھیں۔ مجھے نہیں پتا پچھلی سیٹوں پر کیا ہو رہا تھا۔ میں اپنی کھڑکی کا شیشہ توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے ذہن میں بس یہی بات تھی کہ یہ شیشہ توڑنا ہے کیونکہ اب اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ ہر طرف صرف آگ تھی۔‘

امداد علی نے بتایا کہ وہ نوکری کی تلاش میں سیالکوٹ جا رہے تھے اور ان کے دوست بھی ان کے ہمراہ تھے۔

اسی حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک اور شخص کے مطابق وہ بھی امداد علی کی طرح کھڑکی توڑ کر باہر آئے تھے

’ڈیزل سے لگنے والی آگ ایک پھوار کی طرح تھی۔ گاڑی میں کچھ آواز سی آئی اور ڈرائیور نے بڑی مہارت سے گاڑی ایک طرف روکی۔ بس کی بائیں طرف آگ لگی ہوئی تھی۔ لیکن دو سیکنڈ میں ہی بس کے اندر آگ پھیل گئی۔‘

’بھتیجی نے چیختے ہوئے کہا بس میں آگ لگ گئی ہے‘

مگر اسی بس میں سوار محمد عمر اور ان کے اہلخانہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے بھائی محمد امتیاز نے بی بی سی سے بات کی اور بتایا کہ ان کے بھائی عمر کراچی سے پنڈی بھٹیاں آ رہے تھے۔ ان کی 12 سالہ بھتیجی، جو اسی بس پر سوار تھیں، نے فون پر انھیں حادثے کی اطلاع دی۔

’میرا بھائی کراچی میں انڈسٹری ایریا میں کام کرتا تھا۔ ان کے بچے یہاں پنڈی بھٹیاں سے چھٹیاں گزارنے اپنے والد کے پاس گئے ہوئے تھے۔ آج بچوں کی آخری چھٹی تھی اور کل انھیں سکول جانا تھا۔ میرے بھائی نے کل مجھے کال کی کہ وہ پنڈی بھٹیاں آ رہے ہیں اور میں انھیں انٹرچینج سے پک کروں۔‘

محمد امتیاز کے مطابق وہ صبح پانچ بجے پنڈی بھٹیاں انٹرچینج پر بس کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک انھوں نے بہت سے ایمبولینسز اور پولیس کی گاڑیاں موٹروے کی طرف جاتی دیکھیں۔

’اتنی گاڑیاں دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کوئی حادثہ ہوا ہو گا۔ پتہ نہیں دل میں ڈر لگا کہ کچھ ہوا ہے۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ میری بھتیجی کی کال آ گئی جو اسی بس میں سوار تھی۔ اس نے چیختے ہوئے بتایا کہ گاڑی کو آگ لگ گئی ہے۔ بس اس کے بعد ہم موٹروے کی طرف نکل پڑے۔‘

یہ بتاتے ہوئے امتیاز آبدیدہ تھے، وہ اس وقت تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پنڈی بھٹیاں میں موجود تھے جہاں اس حادثے میں ہلاک ہونے والے 18 افراد کی میتیں پنچائی گئی ہیں۔

یہ میتیں ’مکمل طور ہر جل چکی ہیں اور ناقابلِ شناخت حالت میں ہیں۔‘

امتیاز نے بتایا کہ وہ جب بس حادثے کی جگہ پہنچے تو ’ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ پوری بس جل چکی تھی۔ ایک قیامت تھی۔ تھوڑے سے لوگ باہر پڑے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، پھر میں نے اپنی دونوں بھتیجیوں کو دیکھا انھیں ایمبولینس میں ڈال کر لے جا رہے تھے، میرا ایک کزن ایمبولینس میں انہی کے ساتھ گیا ہے۔ وہ بتا رہا ہے کہ وہ بچ گئی ہیں اور ٹھیک ہو جائیں گی۔ مگر میری ان سے بات نہیں ہوئی ہے۔ انھیں فیصل آباد منتقل کیا گیا ہے۔‘‘

حادثے میں ان کے بھائی عمر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ہمراہ ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ ان کی دو بیٹیاں جن کی عمریں 12 اور نو سال ہیں، اس وقت زیر علاج ہیں۔

پنڈی بھٹیاں کے ڈی پی او ڈاکٹر فہد نے بی بی سی کو بتایا کہ زخمیوں میں سے صرف دو افراد کی شناخت نہیں ہو سکی ہے جبکہ تمام میتیں ناقابل شناخت ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہلاک ہونے والوں کی ڈی این اے ٹیسٹ کے بغیر شناخت ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے جسم مکمل طور پر جل گئے ہیں۔ جو زخمی ہیں ان میں سے چار افراد کو تھرڈ ڈگری برنز ہیں اور پانچ کو سیکنڈ ڈگری برنز آئے ہیں۔ زیادہ تر کی حالت تشویشناک ہے۔‘

خیال رہے کہ تھرڈ ڈگری برنز میں انسانی جسم ستر فیصد سے زیادہ جل چکا ہوتا ہے اور اگر اس میں جسم کے اہم اعضا جیسا کہ دل، دماغ، پھیپھڑے وغیرہ شامل ہوں تو جان بچنا مشکل ہو سکتا ہے۔

حادثہ کیسے پیش آیا؟

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر حافظ آباد ڈاکٹر فہد کے مطابق حادثہ صبح سوا چار بجے کے قریب پیش آیا۔

بی بی سی کے پاس موجود حادثے کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بس میں 35 سے 40 افراد سوار تھے اور حادثہ اس وقت پیش آیا جب یہ بس لاہور سرگودھا روڈ کے قریب ایک فلائی اوور پر ایک ’پک اپ‘ گاڑی سے ٹکرائی۔ اس گاڑی میں تین ڈیزل ڈرم رکھے ہوئے تھے اور اس میں ڈرائیور سمیت دو افراد سوار تھے۔

ڈی پی او ڈاکٹر فہد کہتے ہیں کہ ’قوی امکان ہے کہ ڈرائیور کی آنکھ لگ گئی تھی اور اس دوران بس دوسری گاڑی سے ٹکرا گئی۔ بس نے گاڑی کو کچھ میٹرز تک اپنے ساتھ گھیسٹا ۔ وہ کہتے ہیں کہ تصادم اتنا شدید تھا کہ ڈیزل کا ایک ڈرم روڈ سے کچھ دور جا گرا جبکہ باقی دو نے آگ پکڑ لی۔ انھوں نے بتایا کہ پک اپ وین مکمل توڑ پر جل گئی ہے اور اس میں سوار دو افراد میں سے ایک ڈرائیور ہلاک ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ ملک میں ایسے حادثات اب معمول بن چکے ہیں۔ ان حادثات کی وجوہات میں گاڑیوں کی بروقت چیکنگ اور سیفٹی پروٹوکولز کا خیال نہ رکھنا، سڑکوں کی خستہ حالی اور ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کرنا بنیادی وجوہات ہیں

طویل سفر کے دوران مسافر گاڑیوں کے ڈرائیورز کی مسلسل شفٹیں اور ڈرائیونگ کے دوران سو جانا بھی ان حادثات کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

گزشتہ برس موٹروے پر گاڑیوں میں آگ لگنے کے مختلف واقعات میں سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اگست میں بس اور آئل ٹینکر کے درمیان حادثے میں آگ لگنے سے بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی طرح اکتوبر میں موٹروے پرہی ایک اور مسافر بس میں آگ لگنے سے کم از کم بیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آگ لگنے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی۔

رواں برس فرووری میں ایک بس حادثے میں تیرہ افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ اس سے ایک ماہ پہلے لسبیلہ میں اس وقت چالیس افراد ہلاک ہوئے جب ایک بس اوور سپیڈنگ کے دوران پل سے نیچے گری اور اس میں آگ لگ گئی۔ جبکہ روان برس جون میں ایک اور بس میں بریک فیل ہونے کے باعث حادثے میں کم از کم تیرہ افراد ہلاک اور پندرہ زخمیہوئے تھے۔

دوسری جانب تحصیل ہیڈ کوارٹرز پسپتال پنڈی بھٹیاں میں زیر علاج امداد علی اور ان جیسے معمولی زخمی اپنے گھروں کو واپسی کے لیے انتظام کے منتظر بھی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے گھر میں والدہ اور پانچ چھوٹی بہنیں ہیں۔ انھیں جب حادثے کا پتا چلا تو ان کے لیے تو یہ قیامت تھی۔ مگر میری اپنی والدہ سے بات ہوگئی ہے اور انھیں تسلی ہے کہ میں بچ گیا ہوں۔ مگر انھیں یہ سمجھانا مشکل ہے کہ میں زیادہ زخمی نہیں ہوں۔ ابھی ایک ٹیکسی والے نے کہا ہے کہ 35000 لے گا ہمیں سکھر چھوڑنے کے لیے۔ ہم تو بہت غریب لوگ ہیں، فی الحال تو واپسی کا کرایہ بھی نہیں ہے۔ امید ہے کہ حکومت کوئی انتظام کرے گی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.