شکارپور میں ’سکول اوقات میں بچوں کے گیمز کھیلنے اور ہوٹلوں میں بیٹھنے‘ پر پابندی کیوں لگانی پڑی؟

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع شکار پور کی ایک ٹاؤن انتظامیہ کو سکول کے اوقات میں بچوں کے گیمز کی دکانوں پر گیمز کھیلنے اور ہوٹلوں پر بیٹھنے پر پابندی کیوں عائد کرنا پڑی؟

پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور کی ایک ٹاؤن انتظامیہ نے سکول کے اوقات میں بچوں کے گیمز کی دکانوں پر کھیلنے اور ہوٹلوں میں بیٹھنے پر پابندی عائد کی ہے اور متنبہ کیا ہے کہ اگر کسی ہوٹل یا گیم زون مالک نے خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف پولیس کارروائی کی جائے گی۔

شکارپور ضلع کے چک ٹاؤن کے بلدیاتی چیئرمین ڈاکٹر نوید مہر نے یہ پابندی عائد کی ہے۔

ڈاکٹر نوید مہر اپنے گاؤں محمد پریل مہر جو کچے کے علاقہ میں واقع ہے، میں گذشتہ کئی برسوں سے ایک سرکاری سکول کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وہاں اساتذہ کی کمی تھی، انھوں نے اپنی جیب سے تنخواہیں دے کر وہاں اچھے ٹیچر بھرتی کیے اور اس کام میں ان کے اہلخانہ نے بھی ان کی مدد کی۔

وہ اپنے زیر انتظام سکول کے بارے میں بتاتے ہیں ’یہ ماڈل سکول بن گیا ہے، اس میں غریب اور نچلے طبقے کے بچے پڑھتے تھے جن میں سے کچھ تو اس وقت اعلیٰ تعلیم کے لیے آئی بی اے تک پہنچ چکے ہیں۔‘

اس پابندی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

ڈاکٹر نوید مہر بتاتے ہیں کہ علاقے میں گھومتے پھرتے انھوں نے نوٹس کیا کہ ایسے کئی بچے ہیں جو آوارہ گردی کرتے ہیں اور ہوٹلوں اور گیمز پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں۔

’بلدیاتی نظام کے تحت ہم پولیس اور محکمہ تعلیم کے ساتھ بھی رابطہ کاری کر سکتے ہیں لہذا میں نے دونوں محکموں کو اعتماد میں لے کر اس پابندی کا حکم جاری کیا کہ اگر سکول کے اوقات کے دوران کوئی بچہ ان گیم زونز اور ہوٹلوں پر دیکھا گیا تو پولیس کارروائی ہوگی اور اس کو سیل بھی کیا جا سکتا ہے۔‘

چک ٹاؤن کمیٹی 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ چک ٹاؤن کی حدود میں تین بوائز پرائمری سکول، دو گرلز پرائمری سکول، ایک بوائز ہائی سکول جس کو ہائر سکینڈری کا درجہ حاصل ہے جبکہ ایک گرلز مڈل اور ایک گرلز ہائی سکول ہے۔

ڈاکٹر نوید مہر کے مطابق ان کی توجہ پرائمری سکولوں پر ہے۔

ڈاکٹر نوید کے مطابق پرائمری سکولز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سکول جانے والی عمر کے 25 سے 30 فیصد ایسے بچے ہیں جو سکولوں میں داخل نہیں، ان کی کوشش ہے کہ اس کو بڑھائیں اور ان کے ٹاؤن کی شرح خواندگی 95 فیصد تک پہنچ جائے۔

وہ اس ضمن میں اپنے پاس موجود اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کچھ اقدامات بھی کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ بدقسمتی سے سکولوں میں ٹوائلٹس کی صفائی کا انتظام نہیں کیونکہ وہاں کوئی صفائی کا عملہ موجود نہیں۔ وہ ٹاؤن کمیٹی سے نہ صرف ان سکولوں میں صفائی کا عملہ اور پینے کا صاف پانی فراہم کریں گے اس کے علاوہ سولر پنکھوں کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔

ٹاؤن چیئرمین چک ڈاکٹر نوید مہر کہتے ہیں کہ وہ اساتذہ کی ہمت افزائی اور مدد کے ساتھ ساتھ نگرانی اور احتساب بھی کر رہے ہیں تاکہ بہتری کا سلسلہ جاری رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں خود فون کر کے معلوم کرتا ہوں کہ آج کتنے ٹیچرز حاضر ہیں۔‘

اس پابندی کے کیا نتائج سامنے آئے؟

چک ٹاؤن کی سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی آئیں جن میں سرکاری سکولوں کے اساتذہ بچوں کا داخلہ کرانے کے لیے دیواروں پر پوسٹر لگاتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

ایک پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر اسرار بھیو نے بتایا کہ سکول کے وقت میں بچوں کے گیمز کی دکانوں اور ہوٹلوں پر جانے کی پابندی کے فیصلے کے چند روز میں مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔

’کئی بچے سکول واپس آ گئے ہیں اور والدین کہہ رہے ہیں کہ پابندی لگنے کا فیصلہ اچھا ہے۔‘

اسرار بھیو کے مطابق ان کے سکول میں 621 بچے داخل ہے لیکن آتے صرف 470 بچے ہیں اور ان کا سکول دو شفٹوں میں چلتا ہے۔

پاکستان میں کتنے بچے سکولوں سے باہر ہیں؟

School
Getty Images

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈولمپنٹ اکنامکس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے 23 ملین بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان کو بدترین کارکردگی کا حامل صوبہ قرار دیا گیا جہاں تقریباً 60 فیصد بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ بلوچستان کے بعد سندھ میں 42 فیصد سکول نہ جانے والے بچے ہیں اور گذشتہ سال کے سیلاب نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔

سندھ میں محکمہ تعلیم کے مطابق پرائمری سکولوں میں 47 فیصہ بچے داخل ہیں۔

صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کا ہدف تھا کہ 50 لاکھ بچے سکول جائیں لیکن سیلاب کی وجہ سے ایسا نہیں ہو سکا۔

’ہمارے 40 ہزار میں سے 20 ہزار سکول متاثر ہوئے ہیں، ہمارے پاس سکولوں کا انفرا اسٹریکچر پہلے بھی اور اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

بچوں کے سکول نہ جانے کی بڑی وجہ کیا ہے؟

بچے
Getty Images

صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا ہے کہ بچوں کے سکول نہ جانے کی ایک بنیادی وجہ صوبے میں غربت اور مہنگائی ہے۔

’اگر کسی کے چار یا پانچ بچے ہیں تو دو بچوں کو وہ کامپر لگاتا ہے کیونکہ اس پر دباؤ ہے۔ وہ سارے بچوں کو پڑھا نہیں سکتا ہے۔ دوسری وجہ شعور کا فقدان ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ کہیں کہیں سکول دور ہیں۔‘

اسی طرح شکار پور کے سرکاری سکول کے ہیڈ ماسٹر اسرار بھیو کا بھی کہنا ہے کہ ’اس عمر کے بچے والد کے ساتھ مچھلی کا شکار کرنے جاتے ہیں یا کھیت پر کام کرتے ہیں جہاں سے روزانہ سو، پچاس روپے مل جاتے ہیں اور اس لالچ کی وجہ سے وہ تعلیم پر کم توجہ دیتے ہیں۔‘

صوبائی وزیر سید سردار علی شاہ کا کہنا ہے کہ ہم نے صوبے میں سکولوں کی جانچ پڑتال کی ہے۔

’ہم نے 60 ہزار اساتذہ کو بھرتی کیا، اس کے علاوہ تقریباً 1500 ایسے سکول ہیں، جو صرف کاغذوں میں تھے۔ انھیں ختم کیا اور 5000 کے قریب ایسے سکول جو موزوں نہیں تھے، انھیں بند کیا ہے۔ اس وقت صوبے میں 40 ہزار فعال سکول ہیں اور اساتذہ کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لیے مانیٹرنگ نظام موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس ضمن میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر ایک ایپ بنائی گئی ہے جس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.