سیما رند: ڈاکوؤں کا کشمور، سندھ میں ہندو کمیونٹی کی عبادت گاہ پر حملہ، جانی نقصان نہیں ہوا

پاکستان کے صوبے سندھ کے شمالی اضلاع میں پولیس نے ہندو کمیونٹی کی عبادت گاہوں اور بستیوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی جانب سے سیما رند کی واپسی کے لیے دی گئی دھمکیوں کے بعد یہ حفاظتی انتظام کیے گئے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ڈاکوؤں نے ہندو کمیونٹی کی ایک عبادت گاہ پر حملہ کیا ہے، جس میں دیواروں پرگولیوں کے باعث نشانات رہ گئے ہیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، چند روز قبل ڈاکوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر سیما رند کو انڈیا سے واپس نہیں لایا گیا تو وہ ہندو کی عبادت گاہوں پر حملہ کریں گے۔

شمالی سندھ کے ضلع کشمور کندھ کوٹ کے کچے میں اوگاھی گاؤں میں گزشتہ شب یہ حملہ کیا گیا ہے، غوث پور کے صحافی عبدالسمیع نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی دربار ڈیرہ بابا سانول شاہ کے شیوا دہاریوں سے بات ہوئی ہے، انھوں نے بتایا ہے کہ وہ رات کو مندر کے اندر سوئے ہوئے تھے تو شدید فائرنگ شروع ہوگئی جس کے بعد انھوں نے آس پاس کے گھروں میں پناہ لی۔

پولیس کو دربار کے آس پاس سے دو راکٹ کے گولے بھی ملے ہیں جو پھٹ نہیں سکے تھے یہ گولا دیوار میں پیوست تھا جبکہ ایک پانی کے جوہڑ میں گرا تھا۔

صحافی عبدالسمیع کے مطابق اس گاؤں میں باگڑی کمیونٹی کے ستر کے قریب گھر ہیں اس کے علاوہ آس پاس کے باگڑی کمیونٹی کے لوگ بھی یہاں ماتھا ٹیکنے آتے ہیں۔

ایس ایس پی کشمور کندھ کوٹ عرفان سموں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مندر نہیں دربار ہے جو گھر کے ساتھ ہی بنی ہوئی ہے اور یہاں ہندو کمیونٹی سالانہ پروگرام منعقد کرتی ہے، جس پر گذشتہ رات فائرنگ ہوئی ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس گاؤں کی مسلم آبادی کی دیگر قبائل سے دیرینہ دشمنی ہے اس حوالے سے بھی تحقیقات کی جارہی ہے۔

باگڑی ہندو دلت کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں جو شمالی سندھ سے لےکر زیریں سندھ میں زراعت سے وابستہ ہیں انھیں تربوز کی کاشت میں مہارت حاصل ہے۔

یاد رہے کہ گھوٹکی کے ڈاکو رانو شر نے دھمکی دی تھی کہ اگر سیما رند کو واپس نہیں کیا گیا تو ہندو کی عبادست گاہوں پر حملہ کیا جائے گا جس کے بعد کشمور کندھ کوٹ کے ڈاکوؤں نے بھی ایسی دھمکی دی جس میں غوث پور اور کرم پور کا بھی نام لیا گیا تھا۔

گھوٹکی کے ڈاکو نثار شر نے اس حملے کے بعد ایک ویڈیو میں پولیس افسران سے سوال کیا ہے کہ ’وہ کہاں تھے جو دعویٰ کر رہے اور غوث پور میں مندر پر راکٹ حملہ کیا گیا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کی مذمت کرتے ہیں پاکستانی ہندوؤں کا کوئی قصور نہیں ہے لیکن اگر پاکستان حکومت سیما رند کو واپس نہ لائی تو ایسے ہی حملے ہوتے رہیں گے۔

ہندو عبادت گاہوں اور بستیوں کی سکیورٹی بڑھا دی گئی

’ہم تو پہلے ہی کسی تنازعے سے بچتے ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں، ڈاکوؤں کی دھمکیوں کے بعد یقیناً خدشات تو ہوں گے کیونکہ ہماری کمیونٹی کے لوگ اغوا ہو چکے ہیں اور اس ضلعے میں ہندو کمیونٹی پر حملے بھی ہو چکے ہیں۔‘

رمیش لال (فرضی نام) اس وعدے پر بات کرنے کے لیے راضی ہوئے کہ ہم ان کی شناخت ظاہر نہیں کریں گے، نوجوان رمیش کا تعلق گھوٹکی ضلع سے ہے اور وہ یونیورسٹی میں طالب علم ہیں۔

پاکستان کے صوبے سندھ کے شمالی اضلاع میں پولیس نے ہندو کمیونٹی کی عبادت گاہوں اور بستیوں کی سکیورٹی بڑھا دی ہے، پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکوؤں کی جانب سے سیما رند کی واپسی کے لیے دی گئی دھمکیوں کے بعد یہ حفاظتی انتظام کیے گئے ہیں۔

ڈاکوں کی مندروں پر حملے کی دھمکیاں

شمالی سندھ کے ضلعے گھوٹکی، کشمور، کندھ کوٹ اور جیکب آباد میں ڈاکوں کے کئی گروہ سرگرم ہیں جنھوں نے دریائے سندھ کے ساتھ کچے کے علاقے میںپناہ لے رکھی ہے۔ پولیس گذشتہ کئی دہائیوں سے ان کے خلاف آپریشن کر رہی ہے لیکن تاحال اسے کامیابی نہیں مل ہے۔

سیما اور غلام حیدر دونوں کا تعلق بلوچ قبیلے سے ہے، سوشل میڈیا پر سندھ کے ڈاکوں کے مختلف گروہوں نے انڈین حکومت کو دھمکی دی تھی کہ سیما کو اس کے ملک واپس بھیجا جائے۔

رانو شر نامی ڈاکو نے ایک ویڈیو پیغام میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو، پارلیمینٹرینز اور حکومت سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ ’سیما رند اور بچوں کو واپس وطن لایا جائے بصورت دیگر پاکستان میں رہنے والے جو بھی ہندو ہیں وہ اپنی حفاظت کے خود ذمہ دار ہیں۔ اگر لڑکی واپس نہ آئی تو رہڑکی میں جو مندر ہے اس پر بم مار دیں گے۔‘

یاد رہے کہ رانو شر پولیس کو مطلوب ڈاکو ہے اور ان پر الزام ہے کہ وہ نسوانی آواز میں لوگوں کو ورغلا کر کچے میں بلاتے ہیں اور وہاں سے انھیں اغوا کرتے ہیں۔

ایک دوسری ویڈیو میں پانچ مسلح نقاب پوش ڈاکو ہندو کمیونٹی کو دھمکی دے رہے ہیں کہ ’لڑکی (سیما حیدر) واپس نہیں کی تو جیکب آباد، رتو دیرو، کشمور، جہاں جہاں ہندو رہتے ہیں انھیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘

ڈاکو اس ویڈیو میں انتہائی نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے بچے اور لڑکی واپس کرو، ہم بلوچ قوم ہیں اور ڈرتے نہیں ہیں۔ ویڈیو کے آخر میں وہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں۔

ایک تیسری ویڈیو میں ڈاکو رانو شر کی پیروی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ کندھ کوٹ اور آس پاس کے علاقے میں حملے کریں گے ساتھ میں وہ سامنے موجود بم بھی دکھاتے ہیں۔

bbc
BBC

’اگر وہ پاکستانی ہے بھی اس میں پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کا کیا قصور ہے‘

اقلیتی امور کے صوبائی وزیر گیان چند ایسرانی کا کہنا ہے کہ ان کی اس حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے بات ہوئی ہے اور وہ آئی جی سندھ سے بھی روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ آئی جی سندھ کے مطابق انھوں نے مندروں اور ہندوؤں کے محلوں میں سکیورٹی بڑھا دی ہے۔

سیما کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پہلے تو کوئی قبیلہ انھیں اپنا ماننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ اور اگر وہ پاکستانی ہے بھی اس میں پاکستان میں رہنے والے ہندوؤں کا کیا قصور ہے؟ پاکستانی ہندو اگر انڈیا جانا چاہیں تو انھیں دو دو سال ویزا نہیں ملتا، ویزا مل بھی جائے تو انڈیا میں سکیورٹی کے نام پر پاکستانی ہندوؤں کو وہاں بہت تنگ کیا جاتا ہے، جگہ جگہ انٹری کروائی جاتی ہے۔ ہوٹل میں ٹھہریں تو ات کو سکیورٹی ایجنسی والے پوچھ گچھ کرنے آجاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کوئی پاکستانی لڑکی انڈیا کے کسی ہندو سے شادی کرتی ہے، اس میں میرے خیال میں انڈین حکومت کی کوئی پلاننگ ہے۔ ان کے پاکستان میں فساد کروانے کے کوئی ارادے ہیں، میرے خیال میں یہ سب کچھ انڈیا کروا رہا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کے ہندو نے کچھ کیا ہے تو اس میں پاکستان کے ہندوؤں کا کیا قصور ہے، پاکستان کے ہندو محبِ وطن پاکستانی ہیں۔ صدیوں سے یہاں رہ رہے ہیں، ان کی ہیدائش یہاں کی ہے، ان کے کاروبار یہاں ہیں۔‘

ہندو کمیونٹی کی سرگرمیاں محدود

مذہبی جماعتیں پہلے تو اس معاملے پر خاموش تھیں لیکن اب انھوں نے بھی اس پر بیانات دیے ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنما علامہ راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ واقعے کی فی الفور تحقیقات ہونی چاہیے کہ سیما جکھرانی چار بچوں سمیت کس طرح پاکستان سے براستہ دبئی، نیپال سے انڈیا پہنچی ہیں اور انھیں ان ممالک کے ویزے کس کے توسط سے ملے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ایک مسلمان عورت کا فوری طور پر انڈیا میں پہنچ کر ہندو مذہب قبول کرنا، ساڑھی پہننا، فرفر ہندی زبان بولنا کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔‘

گھوٹکی ضلع کا نام جبری مذہب کی حوالے سے بھی میڈیا میں آتا رہتا ہے، یہاں کی مقامی شخصیت میاں مٹھو پر الزام ہے کہ وہ اس رجحان کو فروع دے رہے ہیں۔

میاں مٹھو نے ایک انٹرویو میں کہاہے کہ ’سندھ میں رہنے والے ہندو سیما رند کی واپسی کے لیے کوشش کریں، ایسا نہ ہو کہ کوئی شرارت کرکے ان کے مندروں پر حملے کر دے۔‘

میونسپل کمیٹی گھوٹکی کے وائس چیئرمین اور سندھ ہیومن رائٹس ک بورڈ کے رکن سکھدیو آسر داس ہیمنانی کا کہنا ہے کہ ان دھمکیوں کی وجہ سے ہندو کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور انھوں نے احتیاطی تدابیر کے طور پر مندروں اور دیگر جہگوں پر اپنی آمد رفت کم کر دی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ ڈاکو غیر ریاستی عناصر ہیں جو ریاست کے ساتھ جنگ میں ہیں، ان کے خلاف ایکشن ہو رہے ہیں۔ کچھ مذہبی انتہا پسند ان کی سپورٹ میں آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی ہندو کمیونٹی کو انڈین ریاست سے بات کرنی چاہیئے۔ میں ان پر واضح کرنا چاہوں گا کہ ہم کوئی ہندوستانی نہیں ہم بھی اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنا کوئی اور ہے۔ ہم بھی برابر کے شہری ہیں۔ جب آپ ہماری لڑکیوں کو اغوا کرکے جبری مذہب تبدیل کرتے ہیں تب تو ہم کسی ریاست سے مدد کو نہیں کہتے، ہم اس وقت بھی ریاست پاکستان کو مدد کے لیے کہتے ہیں‘۔

میرپور ماتھیلو ہندو پنچایت کے مکھی ڈاکٹر مہر چند کا کہنا ہے کہ ’ان ڈاکوں کا نہ سیما سے کوئی تعلق ہے نہ کسی مذہب یا کمیونٹی سے ان کا تعلق ہے۔ ان کا کام صرف ڈکیتیاں ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک ایسی کمیونٹی جو صاف شفاف ہے اور صرف اتنا چاہتی ہے کہ ہمیں امن سے رہنے دیا جائے اس وجہ سے وہ انھیں دھمکیاں اور پریشانیاں دیتے ہیں۔‘

bbc
BBC

مندروں کی سیکیورٹی میں اضافہ

سندھ کے شمالی اضلاع میں ہندو کمیونٹی زیادہ تر کاروبار سے منسلک ہیں اور سنار سے لے کر زرعی اجناس کی خریداری اور رائس ملز کے مالک ہیں، ان اضلاع میں کئی مذہبی مقامات موجود ہیں جن میں شکارپور اور گھوٹکی اہم ہیں جہاں ہندو بزرگوں کے دربار واقع ہیں۔

گھوٹکی میں رھڑکی دربار موجود ہے جہاں سائیں سترام داس کی 1866 میں پیدائش ہوئی تھے اس سنت کو سچو سترام یا سچا سترام اور ایس ایس ڈی دھام کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ یہاں ہر سال میلا لگتا ہے جس میں انڈیا سے بھی یاتری خاص طور پر شرکت کرتے ہیں، ان میں کئی ایسے خاندان ہوتے ہیں جو تقسیم کے وقت یہاں سے انڈیا چلے گئے تھے۔

تقسیم سے قبل جب شمالی سندھ میں مذہبی فسادات ہوئے تو اسی دربار سے جڑے سنت بھگت کنور رام کو قتل کیا گیا تھا، جن کی سمادھی بھی یہاں موجود ہے۔

شکارپور میں سمادھا آشرم موجود ہیں جس کے بارے میں دربار کے منتظم بھگوان داس کہتے ہیں کہ اس آشرم کو 250 سال ہو گئے ہیں۔ بابا ہربھجن پہلے گدی سر یا گدی نشین تھے جو پنجاب سے آئے تھے اور اب ساتویں گدی سر ہیں۔ سکھر میں دریا کے بیچ میں سادھو بیلو کے نام سے بابا بکھنڈی مہاراج کی دربارموجود ہے، جہاں ہر سال میلا لگتا ہے۔

گھوٹکی میں واقع ایس ایس ڈی مندر میں 2019 میں بھی مشتعل افراد نے حملہ کرکے توڑ پھوڑکی تھی۔

گھوٹکی میں پیپلز پارٹی کے مینارٹی ونگ کے صدر کوکو رام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی نفری بڑھائی گئی ہے، رینجرز بھی آگئی ہے جو تعاون کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی کمیونٹی کو افسوس ہے کہ وہ سندھ دھرتی کے رہنے والے ہیں اور یہاں پر ہمارے ہی بھائی ایسے بیانات دے رہے ہیں جس کی وجہ سے کمیونٹی میں مایوسی کی لہر بھی ہے۔

bbc
BBC

ڈی آئی جی سکھر پولیس جاوید جسکانی کہتے ہیں کہ ویڈیو پیغام جاری کرنے والے بدنام زمانہ ڈاکو رانو شر کا گھیراؤ تنگ کیا جا رہا ہے ’ان اشتہاری مجرموں کی طرف سے جو مسئلہ اٹھایا گیا ہے اگر انھیں مذہبی طور پر حوصلہ افزائی کرنے والی تنظیموں سے بیک اپ ملتا ہے تو یہ معاملہ سنگین بھی ہو سکتا ہے۔‘

وہت بتاتے ہیں کہ ’ہمارے ضلع کے ایس ایس پیز نے مندروں اور ان علاقوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے ہیں جہاں ہندو زیادہ تعداد میں رہتے ہیں۔ ان اقدامات میں بھاری تعیناتی، گشت اور انٹیلی جنس کے ذریعے اُن لوگوں کو ٹارگٹ کرنا شامل ہے جو ممکنہ طور پر ہندوؤں کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔‘

سندھ کے چیف منسٹر کے سپیشل اسسٹنٹ ویر جی کوہلی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ بھر میں جتنے بھی مندر ہیں وہاں پہلے ہی سے پولیس نفری موجود ہے اور وہاں پر سی سی ٹی وی کیمرے موجود ہیں اگر کوئی منہ چھپا کے دھمکی دیتا ہے تو اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ریاست اپنی رٹ قائم رکھےگی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’جب ہندو لڑکیاں بھی جاتی ہیں تو ہم کیا کرتے ہیں، ہم کچھ بھی نہیں کرتے کیونکہ قانون یہ کہتا ہے کہ لڑکی کا بیان قابل قبول ہوتا ہے، شرط یہ ہے کہ بالغ ہو۔ تو انسان کوئی بھی ہو وہ اپنا مذہب تبدیل کر سکتا ہے، شادی کر سکتا ہے۔‘

غلام حیدر کی مشاورت

سیما رند کا تعلق سندھ کے ضلع خیرپور کی تحصیل کوٹڈیجی کے گاؤں حاجانو رند سے ہے، انھوں نے غلام حیدر جکھرانی سے جب پسند کی شادی کی تھی تو عدالت میں یہاں کا ہی ایڈریس دیا گیا تھا۔

غلام حیدر کا تعلق جیکب آباد کے علاقے نور پور سے ہے لیکن شادی کے بعد وہ گلستان جوہر میں واقع دہنی بخش گوٹھ منتقل ہو گئے اور سعودی عرب میں مزدوری کے لیے جانے سے پہلے تک وہ اپنی فیملی اور سسرال کے ساتھ یہاں ہی رہتے تھے۔ اسی علاقے میں ان کی سالی کا گھر بھی ہے۔

غلام حیدر کے والد میر جان نے ملیر تھانے پر بہو اور بچوں کی گمشدگی کی درخواست دے رکھی ہے۔

سعودی عرب سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے غلام حیدر جکھرانی نے کہا کہ وہ اس درخواست کو ایف آئی آر میں تبدیل کرنے کے لیے وکیل سے مشاورت کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ انھوں نے اپنی فیملی کو کہا ہے کہ وزارتِ خارجہ کو بھی درخواستیں بھیجیں تاکہ حکومت پاکستان ان کی بیوی اور بچوں کی واپسی کے لیے مدد کرے۔

دوسری جانب پاکستان میں سوشل میڈیا پر سیما رند کے لباس سے لے کر ان کے اندازِ گفتگو پر تبصرے کیے جارہے ہیں۔ کچھ انھیں انڈین جاسوس قرار دے رہے ہیں تو کچھ کا کہنا ہے کہ وہ سندھ کی ہو ہی نہیں سکتیں۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر زین بگٹی لکھتے ہیں کہ ’سیما پاکستانی نہیں انڈین ایجنسی را کی ایجنٹ پریانکا ہےجو 2013 میں دبئی سے پنجاب کے شہر ملتان میں داخل ہوئی اور وہاں اپنا نام سیما رکھ لیا، وہاں اس کی انور نامی لڑکی سے ملاقت ہوئی، غلام حیدر اور انور ساتھ کام کرتے تھے۔‘

شمع جونیجو نامی ٹوئیٹر ہینڈل سے لکھا گیا کہ ’یہ کونسی مسلمان ہے، جسے کوئی آیت یاد نہیں؟ اس کے پاکستان میں گھر والے اور رشتے دار کون اور کدھر ہیں؟ یہ کہاں پڑھی، کہاں پلی بڑھی؟ میڈیا پتہ کرے اس مشکوک کیس کا۔‘

کالم نویس جاوید احمد قاضی لکھتے ہیں کہ ’میں سندھی ہوں اور مجھے شبہ ہے کہ یہ (سیما) نہیں ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.