’کلبھوشن ناروے سے نہیں تھا۔۔۔ بہتر ہوتا جاوید اختر سیاست کے بجائے شاعری، ادب پر بات کرتے‘

یوں تو لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹول کو ختم ہوئے کیی روز بیت چکے ہیں مگر سوشل میڈیا پر ابھی تک اسی بارے میں بحث جاری ہے اور انڈیا کے معروف نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر کا ایک کلپ پاکستان و انڈیا دونوں ممالک میں وائرل ہے۔

یوں تو لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹول کو ختم ہوئے کئی روز بیت چکے ہیں مگر سوشل میڈیا پر ابھی تک اسی بارے میں بحث جاری ہے اور انڈیا کے معروف نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر کا ایک کلپ پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک میں وائرل ہے۔

یاد رہے جاوید اختر نے گذشتہ ہفتے کے اختتام پر پاکستان کے شہر لاہور میں منعقدہ فیض فیسٹول میں شرکت کی تھی اور یہ کلپ اسی دوران ان کی جانب سے کی گئی گفتگو پر مبنی ہے۔

جاوید اختر پانچ سال کے وقفے کے بعد اس تقریب میں شرکت کر رہے تھے۔

فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی فیض فاؤنڈیشن ٹرسٹ چلاتی ہیں اور وہ اس تقریب کی مرکزی منتظم تھیں۔

جاوید اختر نے کیا کہا؟

وائرل کلپ میں جاوید اختر کہتے ہیں کہ ’یہاں میں تکلف سے کام نہیں لوں گا۔ ہم نے تو نصرت (فتح علی خان) کے بڑے بڑے فکنشن کیے، مہدی حسن کے بڑے بڑے فنکشن کیے، آپ کے ملک میں تو لتا منگیشکر کا کوئی فکنشن نہیں ہوا۔‘

اس بات پر انھیں سامعین کی جانب سے خاصی داد ملی مگر اس کے ساتھ ہی وہ کہتے ہیں ’حقیقت یہ ہے کہ چلیے ہم ایک دوسرے کو الزام نہ دیں، اس سے حل نہیں نکلے۔ بات یہ ہے کہ آج کل جو اتنی گرم فضا (دونوں ملکوں کے مابین ماحول) ہے، وہ کم ہونی چاہیے۔‘

جاوید اختر آگے چل کر مزید کہتے ہیں ’ہم بمبئی کے لوگ ہیں ہم نے دیکھا ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا تھا، وہ لوگ ناروے سے تو نہیں آئے تھے، نہ مصر سے آئے تھے۔۔۔۔ وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔ تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہو تو آپ کو بُرا نہیں ماننا چاہیے۔‘

پروگرام میں ایک خاتون نے جاوید اختر سے سوال کیا کہ آپ کئی بار پاکستان آ چکے ہیں اور آپ دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان ایک بہت دوستانہ، مثبت سوچ رکھنے اور محبت والا ملک ہے لیکن ہندوستان میں ہمارا تصور اتنا اچھا نہیں ہے۔

’میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آپ یہاں آتے ہیں تو کیا وہاں جا کر بتاتے ہیں کہ وہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں، وہ تو جگہ جگہ بم نہیں مارتے، ہمیں پھول بھی پہناتے ہیں اور پیار بھی کرتے ہیں۔ کیا آپ جا کر بتاتے ہیں یا نہیں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ اس خطے میں اچھے حالات ہوں، ہم آپس میں محبت اور دوستی کریں۔‘

اس پر جاوید اختر نے کہا کہ ’آپ جو کہہ رہیں ہیں اس میں بہت سچائی ہے۔ اور یہ بہت دکھ کی بات ہے کہلاہور اور امرتسر کے درمیان 30 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اس کے باوجود ان دونوں شہروں اور ملکوں کے لوگوں میں ایک دوسرے کے بارے میں جو لاعلمی ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ یہ مت سوچیں کہ آپ ہندوستان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہیں یا میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں پاکستان کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں۔ یہ لاعلمی دونوں طرف ہے۔‘

بمبئی حملوں کے دوران کیا ہوا تھا؟

یاد رہے کہ 26 نومبر 2008 کو تقریباً 10 حملہ آوروں نے انڈیا کے شہر ممبئی کے پانچ بڑے مقامات پر حملہ کیا تھا۔ ان حملوں میں چھترپتی شیواجی ٹرمینس ریلوے سٹیشن، نریمان ہاؤس کمرشل اور رہائشی کمپلیکس، کاما ہسپتال، لیوپولڈ کیفے، دی اوبرائے ٹرائیڈنٹ ہوٹل اور تاج ہوٹل اینڈ ٹاور کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

منصوبے کے مطابق کئی جگہوں پہ حملہ آوروں نے لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا اس لیے انڈیا کی نیشنل سکیورٹی گارڈز کو نئی دہلی سے بلا لیا گیا۔ ممبئی حملہ 26 نومبر کی رات نو بج کر 15 منٹ پر شروع ہوا اور تین روز تک چلتا رہا جب انڈین فورسز نے آپریشن کے نتیجے میں 29 نومبر کی صبح نو بجے تک تمام حملہ آوروں کو مار کر اس آپریشن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

اس حملے کے نتیجے میں 26 غیر ملکیوں سمیت 166 لوگ ہلاک اور 300 کے قریب زخمی بھی ہوئے۔

ان حملوں کے دوران پولیس نے پاکستانی شہری اجمل قصاب کو گرفتار کر لیا تھا۔ قصاب پر مقدمہ چلایا گیا اور بعد میں انھیں پھانسی دی گئی۔ انڈیا ان حملوں کا الزام شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ پر عائد کرتا ہے۔ تاہم پاکستان ان حملوں میں اپنے کسی بھی نوعیت کے کردار کی بارہا تردید کر چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل: ’جاوید اختر کی پاکستان میں بیٹھ کر سرجیکل سٹرائیک‘

جاوید اختر کا بیان پاکستان اور انڈیا دونوں ملکوں میں سوشل میڈیا سے لے کر ٹی وی سکرینوں پر وائرل ہے۔

انڈیا کے بیشتر افراد اس بیان کو جاوید اختر کی ’پاکستان میں بیٹھ کر سرجیکل سٹرائیک‘ قرار دے رہے ہیں جبکہ بہت سے ایسے صارفین ہیں جن کے خیال میں اس پلیٹ فارم کو اس نوعیت کی گفتگو کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا۔

بالی وڈ اداکارہ کنگنگا رناوت نے جاوید اختر کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ’جب میں جاوید صاحب کی شاعری سُنتی ہوں تو لگتا تھا کہ ماں ساوتری جی کی ان پر کرپا ہے، لیکن دیکھو کچھ تو سچائی ہوتی ہے انسان میں تبھی تو خدائی ہوتی ہے ان کے ساتھ میں۔۔۔۔ جے ہند جاوید صاحب (آپ نے) گھر میں گھس کے مارا۔‘

https://twitter.com/bhak_sala/status/1627999497933697024?s=20

اشیش سود نے لکھا ’اس مرتبہ جاوید اختر نے سب انڈینز کے دل جیت لیے۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’یہ تیسری سرجیکل سٹرائیک ہے، وہ بھی پاکستان میں، پاکستانی سٹیج سے اور پاکستانی عوام کے درمیان۔‘

جہاں انڈیا میں جاوید اختر کے بیان کے بعد ایک مخصوص طبقہ ان کی خاصی پذیرائی کر رہا ہے وہیں پاکستان میں اس حوالے سے ملاجلا ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

پاکستانی اداکار شان شاہد نے ٹویٹ کیا کہ ’ان کو گجرات میں مسلمانوں کے قاتل کا تو پتا ہے لیکن یہ خاموش ہیں اور اب یہ صاحب پاکستان میں 26/11 کے ملزموں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔‘

شان شاہد نے پوچھا کہ ان کو ویزا کس نے دیا؟

https://twitter.com/aimaMK/status/1628107530441195543?s=20

صحافی آئمہ کھوسہ لکھتی ہیں ’صرف ایک چھوٹا سا انسان ہی کسی دوسرے ملک میں جا کر اپنے ان میزبانوں کی توہین کرے گا جنھوں نے اس کی مہمان نوازی اور احترام میں کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی۔‘

ایک صارف نے لکھا لاہور میں بیٹھ کر جاوید اختر نے پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا۔ وہ طنزیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ اب مزید کیا رہ گیا ہے ؟ ’آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت کو سیکولرازم پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جا سکتا ہے۔‘

https://twitter.com/BanoBee/status/1627954908337930240?s=20

خرم زبیر نے لکھا ’جاوید اختر برصغیر میں ایک ادبی شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں، انھوں نے فیض فیسٹیول کے دوران پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام لگایا لیکن بھول گئے کہ کلبھوشن ناروے سے نہیں تھا اور پاکستان میں امن کو فروغ دینے نہیں آیا تھا۔ بہتر ہوتا کہ وہ سیاست کے بجائے شاعری اور ادب پر ​​بات کرتے۔‘

https://twitter.com/Khurram__z/status/1628093172080611328?s=20

انھوں نے مزید لکھا کہ جاوید اختر نے پاکستان پر لتا منگیشکر کی میزبانی نہ کرنے کا الزام بھی لگایا، مہدی حسن اور نصرت فتح علی خان کے انڈیا میں ہونے والے فنکشنز کا موازنہ بھی کیا۔ ’کیا انھیں معلوم نہیں کہ سونو نگم، ادت نارائن، کمار سانو اور الکا نے پاکستان میں لائیو پرفارم کیا؟‘

ایک اور صارف نے لکھا جاوید اختر نے آدھا سچ بولا۔

انھوں نے جو کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ انڈیا اس سب میں ایک بے قصور فریق ہے۔

’فنکار سیاسی ہو سکتا ہے لیکن اسے ریاست کے بیانیے کو آگے نہیں بڑھانا چاہیے۔‘

https://twitter.com/sehartariq/status/1628005485499514886?s=20

ثمن جعفری کا کہنا ہے کہ ’جاوید اختر اور ان کی اہلیہ ماضی میں بھی پاکستان کے خلاف نفرت انگیز، متنازع اور متعصب رہے ہیں جو کسی بھی طرح فنون لطیفہ کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ یہ شرم کی بات ہے کہ لاہور میں لوگ ان کا پرتپاک استقبال کرنے کے لیے ان کے آگے بچھے جا رہے تھے اور انھوں نے ایک سادہ سے سوال کو نفرت کی سیاست میں بدل دیا۔‘

تاہم دوسری جانب کئی افراد کا ماننا ہے کہ جاوید اختر نے کوئی غلط بات نہیں کی۔

صحافی زبیر علی خان پوچھتے ہیں ’جاوید اختر صاحب نے فیض فیسٹیول میں جو کہا اس میں غلط کیا تھا؟ ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنا سیکھیں، امن کے قیام سے پہلے دونوں طرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا ہوگا ورنہ دونوں طرف کے لوگ پراپیگنڈا کا شکار ہو کر غربت میں ہی پستے رہ جائیں گے۔ ہمیں دشمن نہیں پڑوسی بننا ہے، ذرا سوچیے۔‘

https://twitter.com/HarounRashid2/status/1627403850519916548?s=20

یہ بھی پڑھیے

ممبئی حملے کا مقدمہ: تاخیر کا ذمہ دار انڈیا؟

ممبئی حملے: ’انڈیا اس معاملے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتا‘

پاکستان کا انڈین اداروں پر دہشت گردی کے واقعات کو بڑھاوا دینے کا الزام

بی بی سی کی شمائلہ جعفری سے بات کرتے ہوئے منیزہہاشمی کا کہنا تھا کہ ’جاوید اور شبانہ سے ہمارا پرانا رشتہ ہے، یہ محبت کی میراث ہے، جسے ہم دوسری نسل آگے لے کر چل رہے ہیں، شبانہ کو دکھ تھا کہ وہ فلم کی شوٹنگ کی وجہ سے نہیں آ سکیں۔‘

منیزہ نے کہا ’ہندوستان میں سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے، میں نے نہیں سوچا تھا کہ جاوید آ سکیں گے۔ اس لیے میں نے اکتوبر میں ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ فیض فیسٹیول میں عملی طور پر شامل ہو سکیں گے۔‘

جاوید نے حیرانی سے پوچھا کہ تم مجھے پاکستان آنے کے لیے نہیں کہو گی؟

منیزہ نے جاوید اختر سے کہا ’مجھے آپ سے مل کر خوشی ہو گی، لیکن کیا آپ یہاں آ سکیں گے؟‘ اس پر جاوید نے کہا کیوں نہیں آپ مجھے جتنی بار بلائیں گے میں آؤں گا۔

منیزہ نے اگلے ہی دن ویزے کے لیے کام شروع کر دیا اور پاکستان کی وزارت داخلہ نے بھی اس کی مدد کی اور اس طرح پانچ سال بعد وہ اس پر فیسٹول کا حصہ بن سکے۔

’فیض فاؤنڈیشن مستقبل میں بھی انڈیا سے مہمانوں کو مدعو کرے گی‘

جب فیسٹیول کی منتظم منیزہ ہاشمی سے ممبئی حملوں پر جاوید اختر کے تبصرے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس تقریب میں اتنی مصروف تھیں کہ جاوید اختر کا سیشن نہیں سُن سکیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے ایک بار اندر جانے کی کوشش کی لیکن ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ ہزاروں لوگ پیار اور احترام سے ان کی باتیں سُن رہے ہیں، وہاں کسی نے بھی بیچ میں کچھ نہیں کہا، نہ تو کوئی قابل اعتراض ریمارکس دیے گئے، اس سیشن میں کسی کا فون تک نہیں بجا، وہاں واقعی سناٹا تھا اور سامعین صرف تالیاں بجا رہے تھے۔‘

منیزہ نے کہا کہ جاوید اختر لوگوں سے رابطہ کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے دوسرے سیشن میں سوال جواب کا سیشن طلب کیا تھا۔

’وہ جس طرح چاہتے تھے ویسے بولے، لوگوں نے انھیں بڑے احترام سے سُنا، یہ بہت خوبصورت تھا، اگر کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے تو یہ اس پر منحصر ہے، ہم اپنے دل کے دروازے کھلے رکھتے ہیں، یہی فیض صاحب نے ہمیں سکھایا ہے۔‘

کیا فیض فاؤنڈیشن مستقبل میں بھی انڈیا سے مہمانوں کو مدعو کرے گی، اس سوال پر منیزہ نے کہا کہ ایسا ضرور ہو گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.