یہ اور بات دور رہے منزلوں سے ہم
Poet: آلوک شریواستو By: مصدق رفیق, Karachiیہ اور بات دور رہے منزلوں سے ہم
بچ کر چلے ہمیشہ مگر قافلوں سے ہم
ہونے کو پھر شکار نئی الجھنوں سے ہم
ملتے ہیں روز اپنے کئی دوستوں سے ہم
برسوں فریب کھاتے رہے دوسروں سے ہم
اپنی سمجھ میں آئے بڑی مشکلوں سے ہم
منزل کی ہے طلب تو ہمیں ساتھ لے چلو
واقف ہیں خوب راہ کی باریکیوں سے ہم
جن کے پروں پے صبح کی خوشبو کے رنگ ہیں
بچپن ادھار لائے ہیں ان تتلیوں سے ہم
کچھ تو ہمارے بیچ کبھی دوریاں بھی ہوں
تنگ آ گئے ہیں روز کی نزدیکیوں سے ہم
گزریں ہمارے گھر کی کسی رہ گزر سے وہ
پردہ ہٹائیں دیکھیں انہیں کھڑکیوں سے ہم
جب بھی کہا کہ یاد ہماری کہاں انہیں
پکڑے گئے ہیں ٹھیک تبھی ہچکیوں سے ہم
More Sad Poetry






