یہ انکساری دل کی تریاق سے نبھائی
ہر بار ہار دل کی اک جیت سے لگائی
گو بجلیاں بھری ہیں اپنی سرشت میں بھی
پر خامشی ہماری تقریر سے سنائی
بانو بہشت کی میں خواہش یہ کس طرح کی
اس پالکی بدن میں سیرِ چمن کو آئی
رشتے لباس جیسے محتاج موسموں کے
یہ دوستی محبت سب رنگتیں ہی لائی
ہم نے وفا کی جھولی بھر دی ہے گوہروں سے
آنکھیں ہماری کانیں عادت بھی ہےدہائی
گم گشتہ ء جہاں ہیں، نذرِ نظر رہے ہیں
انداز آسماں کا، تقدیر کی خدائی
اس کوچہ خانہ میں سب نے فَنا ہی پائی
دو داد وشمہ الفت کی اس ادا سے آئی