یہ الگ بات کہ فرصت بھی نہیں ملتی ہے
خود سے مل کر ہمیں راحت بھی نہیں ملتی ہے
ہم تو کرنا بھی نہیں چاہتے دل کا سودا
اور مناسب ہمیں قیمت بھی نہیں ملتی ہے
عشق وہ جرم ہے اس جرم کو کرنے والو
اس کے مجرم کو ضمانت بھی نہیں ملتی ہے
دوڑتے بھی نہیں شہرت کے ہم آگے پیچھے
اور آسانی سے شہرت بھی نہیں ملتی ہے
ہر جگہ لوگ مہذب بھی نہیں ہوتے ہیں
ہر جگہ دوستو عزت بھی نہیں ملتی ہے
ہم نے مانا کہ برے آپ نہیں ہیں لیکن
آپ میں کوئی شرافت بھی نہیں ملتی ہے
عیش بیٹے کی کمائی سے بہو کرتی ہے
ماں کو اب دودھ کی اجرت بھی نہیں ملتی ہے
ہر کسی سے نہیں رکھتا ہوں میں رشتہ عالمؔ
ہر کسی سے یہ طبیعت بھی نہیں ملتی ہے