یوں نکلتی ہے مری بات دہن سے اس کے

Poet: لطف الرحمن By: راحیل, Quetta

یوں نکلتی ہے مری بات دہن سے اس کے
جیسے برسوں کا تعارف ہو بدن سے اس کے

یوں سر بزم ملا ٹوٹ کے اک عمر پہ وہ
ہم بھی گھبرا گئے بے ساختہ پن سے اس کے

اس کا لہجہ ہے کہ بہتی ہوئی نغموں کی ندی
جیسے الہام کی بارش ہو سخن سے اس کے

اس سے مل کے بھی خلا اب بھی وہی روح میں ہے
مطمئن دل بھی نہیں سرو و سمن سے اس کے

خلقت شہر نے افسانے تراشے کیا کیا
دل تہی دست ہی لوٹا ہے چمن سے اس کے

اس طرح شہر صلیبوں سے سجایا اس نے
کوئی محفوظ نہیں دار و رسن سے اس کے

دیکھنا کس کے لہو سے ہے چراغاں مقتل
ایک اگتا ہوا سورج ہے کفن سے اس کے

Rate it:
Views: 321
31 Jan, 2022