ہو گئی بات پرانی پھر بھی
Poet: عنبرین حسیب عنبر By: Erma, Hyderabad
ہو گئی بات پرانی پھر بھی
یاد ہے مجھ کو زبانی پھر بھی
موجۂ غم نے تو دم توڑ دیا
رہ گیا آنکھ میں پانی پھر بھی
میں نے سوچا بھی نہیں تھا اس کو
ہو گئی شام سہانی پھر بھی
چشم نم نے اسے جاتے دیکھا
دل نے یہ بات نہ مانی پھر بھی
لوگ ارزاں ہوئے جاتے ہیں یہاں
بڑھتی جاتی ہے گرانی پھر بھی
بریدہ لائے ہو دربار میں تم
یاد ہے شعلہ بیانی پھر بھی
بھول جوتے ہیں مسافر رستہ
لوگ کہتے ہیں کہانی پھر بھی
More Ambreen Haseeb Amber Poetry






