کیا خبر تجھ کو او دامن کو چھڑانے والے
اور بھی ہیں مجھے سینے سے لگانے والے
ناپتے کیسے مرے ظرف کی گہرائی کو
ڈبکیاں خطۂ ساحل میں لگانے والے
اے ہواؤ نہ کہیں ہاتھ جلا لو تم بھی
بجھ گئے میرے چراغوں کو بجھانے والے
جسم مر سکتا ہے آواز نہیں مرتی ہے
یاد رکھیں مری آواز دبانے والے
خود کو کیسے کسی منزل کے حوالے کرتا
منتظر تھے مری آمد کے زمانے والے
باپ کی قبر پہ مٹی بھی نہیں ڈالتے ہیں
پھول نیتاؤں کی قبروں پہ چڑھانے والے