ہم چھوٹے چھوٹے ہوتے تھے تو چاند کو دیکھا کرتے تھے
کبھی روشن تارے تو کبھی دلکش نظارے دیکھتے تھے
کبھی تازہ تازہ صبح کی ہوا ہمارا دل لبھاتی تھی
کبھی سورج کی تپتی دھوپ اس دل کو دہلاتی تھی۔
جو لوگ ساتھ میں رہتے تھے وہ سب محبت والے تھے
اور جو حسد کرتے تھے وہ سب باہر والے تھے۔
اپنے تو سب دوست تھے وہ سچے اور بے لوث تھے
دشمن ہی بس دوغلے تھے ان کے حربے دل سوز تھے۔
پر اب یہ کیا ہوا اپنا ہی اپنے کو مارتا ہے
ہم کس ڈگر کو جائیں گے یہ بس خدا ہی جانتا ہے۔
ہر طرف خون ہی خون ہے اب کون کسے پہچانتا ہے
کیا چھوٹا اور کیا بڑا اب کون کسے گردانتا ہے۔
ان اقوام کی کیا قسمت جو خود ذلت کماتی ہیں
اپنا مفاد اپنا کھانا پھر چین سے سو جاتی ہیں
اس لفظی گولا باری سے یہ اپنا جی بہلاتی ہیں
آئے گا انقلاب آئے گا گھر بیٹھے شور مچاتی ہیں
ہم ٹوٹیں گے یا بکھریں گے بس یہ دیکھنا باقی ہے
وہ قوم تباہ برباد ہے جو ظلم کو سہتی جاتی ہے
سو در حقیقت اس روش کا صلہ بربادی ہے
اے دل نایاب بتائو نا کیا اسی کا نام آزادی ہے