بے تاب موسموں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
آ جاؤ آئینوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اے رشک بہاراں ذرا قدموں کی چاپ دو
مہتاب کی کرنوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
آیا ہے ترا ذکر ہی شاید بہار میں
وحشت سے کونپلوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اے ندرت خیال ! ذرا بزم آرائی
کچھ روز سے لفظوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اٹھتی سحر کے حسن پہ دل جھوم کے بولا
آفاق پہ لمحوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
دیکھو گے اپنا عکس تو کھل جائے گی گتھی
کیوں چاند ستاروں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
بھولے سے اب انہیں بھی ذرا چھو ہی لیجئے
شبنم اٹے گلوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
کچھ دید عطا کیجئے انکو بھی ذرا سی
کچھ کیجئے پلکوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
لکھئے نہ میرا نام درختوں کی چھال پر
مانوس درختوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
لگتا ہے تیرے ہاتھ کی مہندی میں ڈوب کر
قسمت کی لکیروں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
میں جا رہا ہوں انکی ذرا پیاس بجھانے
تقدیر کے شعلوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
بادل کو برسنا ہے اسے اسکی خبر کیا
پھولوں کا یا کانٹوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے
اک لمحہ وصال کی وسعت کو سوچ کر
آتی ہوئی صدیوں کا بدن ٹوٹ رہا ہے