کوئی بھی سچّا نہِیں ہے سب اداکاری کریں
Poet: رشید حسرتؔ By: رشید حسرتؔ, کوئٹہکوئی بھی سچّا نہِیں ہے، سب اداکاری کریں
آؤ مِل کر دوست بچپن کے، عزا داری کریں
اِن کو اپنے آپ سے بڑھ کر نہِیں کوئی عزِیز
پیار جُھوٹا جو جتائیں اور مکّاری کریں
بھیڑ بکری کی طرح یہ بس میں ٹھونسیں آدمی
اور بولیں اور تھوڑی آپ بیداری کریں
تب تو اِن کی بات پر تُم کان تک دھرتے نہ تھے
اب تُمہارا ساتھ کیا دیں، کیوں طرف داری کریں؟؟
جو تُمہارے عہدِ کرسی میں وفاداروں میں تھے
عین مُمکن ہے کہ تُم سے آج غدّاری کریں
کار سرکاری ہماری اور اِیندھن مُفٹ کا
بے دھڑک ہم خرچ یارو مال سرکاری کریں
ایسی مِحنت کا تصوُّر بھی کہاں ہم کو نصِیب
جو ہمارے آج کے مزدُور یا ہاری کریں
ؔوہ جِسے ہم رامؔ سمجھے تھے نِکل آیا ہے شام
کِس کو سمجھاتے پِِھریں اب کِس سے مُنہ ماری کریں
قِیمتیں چِیزوں کی بڑھتی جارہی ہیں دِن بدِن
ہم رکھیں فریاد کِس کے سامنے، زاری کریں
ایک مُدّت سے رہے اِس عارضے میں مُبتِلا
دُور دِل سے آؤ اب ہم "میں" کی بِیماری کریں
ہم مزارِع گاؤں کے ایسے ہُوئے جِس میں رشِیدؔ
ایک سے بڑھ کر جہاں پر لوگ سرداری کریں
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






