بیتے ہوئے لمحوں کی کسک ساتھ تو ہوگی
بچھڑے ہیں سو ملنے کی للک ساتھ تو ہوگی
مسرور گزاریں گے شبِ ہجر اسی پر
محبوب کی سانسوں کی مہک ساتھ تو ہوگی
ہے بیر اگر نام سے دشنام پکارے
الفاظ میں لہجے کی لچک ساتھ تو ہو گی
اقرار کہ انکار کریں یہ آپ کی مرضی
اظہار کے شعلوں کی لپک ساتھ تو ہوگی
وہ گیت، بے سنگیت سناتے ہیں، سنائیں
پازیب کی جھنکار، دھنک ساتھ تو ہوگی
رک جائے مری سانس تو پھر ہو گا سو ہو گا
وہ جان میری سانس تلک ساتھ تو ہوگی
موسی کو کہاں فکر جلے طور کی چوٹی
ہے شوق کہ جلوے کی جھلک ساتھ تو ہوگی
نظروں سے نظر گر نہ ملائیں تو گلہ کیا
ہے پیار نیا تھوڑی جھجک ساتھ تو ہوگی
بے لطف سمجھ کر نہ مسل دینا یہ غنچے
ان ننھے شگوفوں میں چٹک ساتھ تو ہوگی
چہرے پہ ہنسی دیکھ کے دھوکے میں نہ آنا
ان قہقہوں میں دیکھ سسک ساتھ تو ہوگی
یہ سوچ کے ترشی سے مری صرفِ نظر کر
خاکی ہے بدن تھوڑی کھنک ساتھ تو ہوگی