کبھی ہم تم ملے تھے مہرباں لمحوں کی بارش میں
Poet: عزرا ناز By: عزرا ناز, Karachiکبھی ہم تم ملے تھے مہرباں لمحوں کی بارش میں
مگر اب بھیگتے ہیں ہم انہی یادوں کی بارش میں
جہاں ہم نے محبت کے حسیں خوابوں کو پایا تھا
کبھی تو آ ملو ہم سے انہی جھرنوں کی بارش میں
کبھی آؤ تو یوں آؤ بھلا کر ساری دنیا کو
کہ دو روحیں ملیں جیسے حسیں پھولوں کی بارش میں
بڑی مدت سے خواہش ہے ملیں ساحل کنارے ہم
چلیں ہم ننگے پاؤں دور تک سیپوں کی بارش میں
کریں باتیں زمانے کے ہر اک موضوع پہ ، ساون میں
ہری بیلوں کے نیچے بیٹھ کر زوروں کی بارش میں میں
مرا جی جانتا ہے کتنے رنج و غم اٹھائے ہیں
جیوں کب تک بھلا میں درد کےشعلوں کی بارش میں
ہوئی جاتی ہے میری روح تک سرشار ہر لمحہ
تمہارے رنگ برساتے ہوئے لفظوں کی بارش میں
گذاری ہے اسی حالت میں ساری زندگی ہم نے
سلگتی ، روح جھلساتی ہوئی سوچوں کی بارش میں
More Rain/Barish Poetry
سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں سوکھ جاتی ہے مری چشم رواں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
آسماں ہوتا رہے اشک فشاں بارش میں
سارے صحرائی رہائی کے تمنائی نہ تھے
آ گیا لے کے ہمیں قیس کہاں بارش میں
گھونسلے ٹوٹ گئے پیڑ گرے باندھ گرے
گاؤں پہ پھر بھی جواں نشۂ جاں بارش میں
تیری سرسبز بہاروں پہ دمکتے قطرے
لوح محفوظ کے کچھ رمز نہاں بارش میں
لب احساس کبھی تو کسی قابل ہو جا
چوم لے منزل مبہم کے نشاں بارش میں
ہانپتی کانپتی مضبوط ارادوں والی
بنچ پہ بیٹھی ہوئی محو گماں بارش میں
پہلی ٹپ ٹپ ہی مرے ہوش اڑا دیتی ہے
نیند اڑتی ہے اٹک جاتی ہے جاں بارش میں
آج بھی ڈرتا ہوں بجلی کے کڑاکے سے بہت
اس کو قابو میں کیا کرتی تھی ماں بارش میں
میرے کمرے کا مکیں حبس گلا گھونٹتا ہے
کوئی تو رمز اذیت ہے نہاں بارش میں
حمزہ
چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل چھا گیا سر پہ مرے گرد کا دھندلا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل
اب کے ساون بھی گیا مجھ پہ نہ برسا بادل
سیپ بجھتے ہوئے سورج کی طرف دیکھتے ہیں
کیسی برسات مری جان کہاں کا بادل
وہ بھی دن تھے کہ ٹپکتا تھا چھتوں سے پہروں
اب کے پل بھر بھی منڈیروں پہ نہ ٹھہرا بادل
فرش پر گر کے بکھرتا رہا پارے کی طرح
سبز باغوں میں مرے بعد نہ جھولا بادل
لاکھ چاہا نہ ملی پیار کی پیاسی آغوش
گھر کی دیوار سے سر پھوڑ کے رویا بادل
آج کی شب بھی جہنم میں سلگتے ہی کٹی
آج کی شب بھی تو بوتل سے نہ چھلکا بادل
علی






