کبھی تو آتش کبھی تو دریا ہوا کا رخ بھی بدل گیا
Poet: عبدالحفیظ اثر By: عبدالحفیظ اثر, Mumbai, Indiaکبھی تو آتش کبھی تو دریا ہوا کا رخ بھی بدل گیا
یقیں کی قوت تو ایسی ہی ہے کہ لاوا جیسے ابل گیا
کبھی زمانہ ہوا مخالف کبھی حوادث نے بھی گھیرا
یقیں جو پختہ اگر رہا تو زمانہ سمجھو سنبھل گیا
یہ آزمائش کی جا ہے دنیا کوئی نہ اس سے ہی بچ سکا
رہا جو ثابت قدم ہمیشہ اسے کنارا ہی مل گیا
جو ہو بھی کتنا بڑا ہی پاپی خطا پہ نادم جو وہ رہا
جو ان کی چشمِ کرم پڑی تو خطا کا دفتر ہی دُھل گیا
جو قومیں آباد تھیں جہاں میں تو حشر ان کا کیا ہوا
رہے گناہوں پہ جو مٌصِر تو انہیں کا بَل سب نکل گیا
ملا کبھی اثر سے تو کوئی اٌسے تدبر میں ہی پایا
نہ زندگی کا کوئی بھروسہ کہ آج کوئی تو کل گیا
More General Poetry






