کاش ایسا نہ ہوا ہوتا کاش ویسا نہ ہوا ہوتا
Poet: Ibn.e.Raza By: Ibn.e.Raza, Islamabadمجھ پہ جو گُزری ہے گر اُسکو بھی پتا ہوتا
تو آج وہ مجھ سے یوں ایسے نہ خفا ہوتا
نہ کہتا یوں مجھے کہ دُکھ ہنس کے سہو
وہ بھی اگر لذتِ غم سے کبھی آشنا ہوتا
میرے اُٹھتے ہوئے قدم وہیں رُک جاتے
تو نے اِک بار سہی ، مگر کُچھ تو کہا ہوتا
یہ تو حالات تھے جو اِس موڑ پہ لے آئے
ورنہ یوں سرِ بزم ، نہ میں رُسوا ہوتا
یہ آنسو میرے دل کا بھید نہ کھولتے تو
میری اُلفت کا سرَ عام نہ چرچا ہوتا
اِک زرا سی غلط فہمی نے گُلشن اُجاڑ دیا
میں نے نہ سہی،اُس نے ہی پوچھ لیا ہوتا
مریضَ اُلفت نے یہی کہتے ہوئےدم توڑ دیا
کوئی تو بھری دنیا میں، درد کا مداوہ ہوتا
جس کی اغوش میں سر رکھ ک سکوں ملتاہو
غیروں کی اِس بِھیڑ میں، کوئی تو اپنا ہوتا
رنجھ تو اِس بات کا ہے،جو ہو سکا کیا اُسنے
ہاں مگر دُکھ نہ ہوتا ،اگر وہ بے وفا ہوتا
تعلق توڑ کے مجھ سے تنہائیوں سے کہتا ہے
کاش ایسا نہ ہوا ہوتا کاش ویسا نہ ہوا ہوتا
میں ڈرتا نہ اگر تیری رسوائیوں سے رضا
یوں تماشہ نہ تیری محفل میں بنا ہوتا
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






