چلو لکھتے ہیں
کہانی وفاؤں کی
نہ غم کی نہ اناؤں کی
اس میں لکھیں گے
کہ وہ کیسے جیے؟
جن نے لب نہیں سیے
جو بولتے تو کوئل سنتی
وہ ہنستے تو کلی پھول بنتی
وہ لکھ کے پھینکتے دریا میں
دریا سنوار کے لکھتا
نظر اٹھا کر تکتے جس کی طرف
وہ اسیر اس پہ مر مٹتا
وہ جو کہتے کہ ہم آتے ہیں
شہر کے پھول کھل جاتے ہیں
یہ سب کھو گیا اس سے
محبت ہو گئی اس کو
وہ اک سادہ سی لڑکی تھی
وہ چاند سے باتیں کرتی تھی
پتھروں کو حال سناتی تھی
دریا کو دل کی بات بتاتی تھی
پھول سے دل لگاتی تھی
وہ اک سادہ سی لڑکی نے
کہانی موڑ ڈالی تھی
نہ خوشی رہی نہ وفا رہی
اک بے وجہ سی سزا رہی
وہ پھول بکھر گئے ہیں
وہ پرندے اڑ گئے ہیں
وہ دریا سوکھ گئے
وہ اسیر روٹھ گئے
رہ گئے غم
رہ گیا اشکوں میں اک نم
اس نم میں رہ گئی
اک سادہ سی لڑکی
وہ اک سادہ سی لڑکی نے
کہانی موڑ ڈالی ہے
ڈالی جو بنیاد مصنف نے
وہ بنیاد توڑ ڈالی ہے