پیغام کی خاطر ہوا گویا مرے آگے

Poet: عامر ثقلین By: عامر ثقلین , Arifwala

پیغام کی خاطر ہوا گویا مرے آگے
بت یاد میں تیری وہ تھا رویا مرے آگے

اب کھیل تماشا ہے یہ معنی نہیں رکھتا
ان آب کے قطروں کا گرنا مرے آگے

میں آپ کے پھر ذکر سے غافل نہیں ہوں گا
اک بار تو آجائیے آقا مرے آگے

جھُک جاتی ادب سے ہیں نگاہیں مری اس پل
جب ذکر کوئی کرتا ہے ان کا مرے آگے

دل دیکھ کہ جل اٹھتا ہے میرا یہاں, اکثر
جب فتنہ کوئی ہوتا ہے پیدا مرے آگے

رہبر نہیں ملتا مجھے منزل نہیں ملتی
یوں ہوتا ہے عالم ترا سُونا مرے آگے

میرے لیے تو قید کے جیسا ہے یہ عالم
مرنا ترے پیچھے ہو یا جینا مرے آگے

آنا صدا تیری پہ مِرا ہوگا اسی پل
گو سامنے ہو آگ کا دریا مِرے آگے

اس آج کی دنیا کے تجھے راز سکھاؤں
غالب تُو ذرا سامنے آنا مرے آگے

ملّت کو جھُکا دیکھ یوں اغیار کے در پر
اقبال کا ہر لفظ ہے جلتا مرے آگے

جب موج میں آؤں تو نگاہوں میں سما لوں
اک قطرہ ہے یہ آب کا دریا مرے آگے

تب دید سے محروم تجھے قیس تھا رکھا
اب رقص یہاں کرتی ہے لیلیٰ مرے آگے

گفتار وہ جھوٹا ہے, وہ سچ سے بھی ہے غافل
تُو بات نہ عامر کی یاں کرنا مرے آگے

Rate it:
Views: 1079
15 Mar, 2022