پیغام کی خاطر ہوا گویا مرے آگے
Poet: عامر ثقلین By: عامر ثقلین , Arifwalaپیغام کی خاطر ہوا گویا مرے آگے
بت یاد میں تیری وہ تھا رویا مرے آگے
اب کھیل تماشا ہے یہ معنی نہیں رکھتا
ان آب کے قطروں کا گرنا مرے آگے
میں آپ کے پھر ذکر سے غافل نہیں ہوں گا
اک بار تو آجائیے آقا مرے آگے
جھُک جاتی ادب سے ہیں نگاہیں مری اس پل
جب ذکر کوئی کرتا ہے ان کا مرے آگے
دل دیکھ کہ جل اٹھتا ہے میرا یہاں, اکثر
جب فتنہ کوئی ہوتا ہے پیدا مرے آگے
رہبر نہیں ملتا مجھے منزل نہیں ملتی
یوں ہوتا ہے عالم ترا سُونا مرے آگے
میرے لیے تو قید کے جیسا ہے یہ عالم
مرنا ترے پیچھے ہو یا جینا مرے آگے
آنا صدا تیری پہ مِرا ہوگا اسی پل
گو سامنے ہو آگ کا دریا مِرے آگے
اس آج کی دنیا کے تجھے راز سکھاؤں
غالب تُو ذرا سامنے آنا مرے آگے
ملّت کو جھُکا دیکھ یوں اغیار کے در پر
اقبال کا ہر لفظ ہے جلتا مرے آگے
جب موج میں آؤں تو نگاہوں میں سما لوں
اک قطرہ ہے یہ آب کا دریا مرے آگے
تب دید سے محروم تجھے قیس تھا رکھا
اب رقص یہاں کرتی ہے لیلیٰ مرے آگے
گفتار وہ جھوٹا ہے, وہ سچ سے بھی ہے غافل
تُو بات نہ عامر کی یاں کرنا مرے آگے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






