پیارا وطن ، دہشت گردی اور ہم اہل ایماں
Poet: kashif imran By: kashif imran, Mianwaliاپنے وطن پہ پڑی کس کی بُری نظر ہے
کہ سہما سہما سا یہاں ہر اک بشر ہے
بسر زندگی ہو رہی تھی یہاں ہنستے کھیلتے
مگر اب تو اجڑا اجڑا سا ہر اک نگر ہے
حادثوں پہ حادثہ یہاں ، غموں کا ہے اک پہاڑ
انساں یہاں تو ہر اک اب خستہ جگر ہے
وہ سکوں کہاں گیا ، وہ امن کہیں کھو گیا
دہشت سے دل میں ہر کسی کے اک ڈر ہے
دشمن لگا ہوا ہے وطن کواپنے اجاڑنے
لیکن ہماری جرات، ہماری ہمت سے بے خبر ہے
وار اتنے تو کرکے دیکھ لئے، سمجھا کچھ بھی نہیں
ہر لمحہ وطن پہ قرباں ہر کسی کا جسم و سر ہے
کبھی نہتوں پہ وار کرتا ، کبھی پھولوں کو ہے کچلتا
دشمن کے لئے تو لازم اب آتشِ سقر ہے
جتنا بھی خوں بہا لو ، جتنا بھی ستم ڈھا لو
ظلم کی گھڑی تو بس پہر دو پہر ہے
حوصلے ہیں جواں ، جذبو ں میں ہے صداقت
ہم اہل وطن کو تو نویدِ ظفر ہے
پیارا پیارا جو ہے وطن ، ہمارے لئے ہے ایک چمن
جاں سے پیارا ہمیں اس کا ہر برگ و بر ہے
بزرگوں کی ہے امانت ، رکھیں گے سنبھال کے
محو اسی میں ہر اک کا اب شام و سحر ہے
جان جائے تو جائے اپنے ہی وطن پہ
زندگی تو دو دنوں کا بس اک سفر ہے
کوئی دیکھے نہ میلی آنکھ سے اپنے وطن کو
دل و جاں سے پیارا ، اس کا دیوار و در ہے
شہادت کے لئے چنتا ہے اسے ہی
جو اللہ کو ہوتا بہت منظورِ نظر ہے
وطن کی قیمت کہاں جانیں یہ بے خبر
اہل ایماں کو ہی اصل اس کی قدر ہے
زندگی جو گذرے اس کی حفاظت میں دوستوں
وہ مانند آفتاب ، وہ رشکِ قمر ہے
مالک لوٹا دے امن و خوشیاں میرے وطن کو
دعا سب کی یہ تجھ سے شام و سحر ہے
قرباں ہو جاؤں اپنے پیارے وطن پہ کاشف
مانگی یہی دعا میں نے تو عمر بھر ہے
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے






