پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
Poet: مرزا غالب By: Faizan, Karachi
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقت سفر یاد آیا
سادگی ہائے تمنا یعنی
پھر وہ نیرنگ نظر یاد آیا
عذر واماندگی اے حسرت دل
نالہ کرتا تھا جگر یاد آیا
زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا
کیا ہی رضواں سے لڑائی ہوگی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا
آہ وہ جرأت فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا
پھر ترے کوچہ کو جاتا ہے خیال
دل گم گشتہ مگر یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
وصل میں ہجر کا ڈر یاد آیا
عین جنت میں سقر یاد آیا
More Mirza Ghalib Poetry






