کل رات ایک تتلی
پھولوں سے کہہ رہی تھی
اے ہم نفس مسافر
اے رنگ کے پیامبر
تیرا بھی رنگ فانی
میرا بھی رنگ فانی
تو بھی ہے دو گھڑی کا
میں بھی ہوں چار پل کی
اس دو گھڑی سفر کو
آ یادگار کر دیں
اتنا خمار بھر دیں
اسے بے کنار کر دیں
کہ آنے والے موسم
ہمیں آنسوؤں میں دیکھیں
کبھی خوشبوؤں میں ڈھونڈیں
کبھی کونپلوں میں ڈھونڈیں
کبھی پیار کے مسافر
آئیں جو اس چمن میں
ہمیں یاد کر کے گزریں
ہمیں ہر نخل پہ دیکھیں
اس نازنیں سمے کی
آ وادیوں میں گھومیں
اس بیتتے سفر کی
اک اک ادا کو چومیں
پھر اگلے موسموں کی
تابندگی کی خاطر
جو اب تلک نہاں ہے
اس زندگی کی خاطر
خوابوں کی لے کے چادر
لمحات میں سوجائیں
جو آئی نہیں اب تک
جو بھٹکے کہیں اب تک
آ اس گھڑی کی خاطر
پھر اجنبی ہو جائیں