پتا نہیں کیوں بس جیے جارہے ہیں
Poet: سمعیہ طارق By: سمعیہ طارق, Karachiپتا نہیں کیوں بس جیے جارہے ہیں
جو نہ بھی کرنا ہو وہ کیے جارہے ہیں
بس یہی انداز ہے زندگی کا.
اپنا پتہ نہیں لوگوں کے زخموں کو سیے جارہے ہیں
یوں تو عام لوگوں سے مختلف نہیں
پر اپنے ہی انداز پر فخر کیے جارہے ہیں
خاموش لمحوں میں اصولوں کو بننا
پھر انہی اصولوں پر عمل کیے جا رہے ہیں
سامنے دھندلے منظر ہیں لیکن
ہم خود کو لوگوں کی نظروں سے غائب کیے جا ر ہے
ایک پالتو پرندے کی طرح زندگی کی قید میں ہیں.
لیکن بہانے بہانے سے خود کو آزاد کیے جا رہے ہیں۔
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






