وہ میرے قلب و روح کو شاداب کر گیا
پھر اس طرح گیا مجھے بیتاب کر گیا
کاجل بھی نیند کا مری آنکھوں سے لے اڑا
خوابوں میں آ کے وہ مجھے بے خواب کر گیا
اس نے تو اضطراب کے معنی سجھا دیے
ایسی نگاہ کی مجھے بیتاب کر گیا
جنس گراں سمجھ کے نہیں دیکھتا کوئی
مجھ کو وہ ایک جوہر نایاب کر گیا
جوف صدف سمجھ کے پڑی ابر کی نظر
تھی سطح آب پر وہ تہہ آب کر گیا
باقی رہے نہ بام و دریچے نہ ہی فصیل
کیا حال میرے دل کا یہ سیلاب کر گیا
ساحر تھا دیوتا تھا کوئی بت تراش تھا
پتھر تھی ایک بانوؔ وہ سیماب کر گیا