وطن کی محبت
Poet: Azra Naz By: Azra Naz, Reading UK
ہزاروں میل جو اپنے وطن سے دور بیٹھے ہیں
وطن کی چاہتوں میں ہر گھڑی وہ چور بیٹھے ہیں
میسر ہیں انھیں آسائشیں سارے زمانے کی
مگر یہ بھی حقیقت ہے بڑے مجبور بیٹھے ہیں
کمانے کے لئے روزی پرائے دیس جاتے ہیں
تو آخر کار وہ اک دن وطن کو لوٹ آتے ہیں
کہ ان کے جسدِ خاکی کو یہ دھرتی ڈھانپ لیتی ہے
دیارِ غیر کی وہ خاک میں کب چین پاتے ہیں
انھیں پردیس میں ساون کی بارش یاد آتی ہے
وہ خوشبو سوندھی مٹی کی تصور کو لبھاتی ہے
بھرا کرتے ہیں آہیں یاد کر کے وہ عزیزوں کو
دنوں کے بعد جب کوئی نئی ای-میل آتی ہے
ہم اچھے تھے جب اپنے دیس میں دکھ درد سہتے تھے
کوئی تکلیف ہو اک دوسرے سے کھل کے کہتے تھے
جب اپنے شہر میں تھے ہم تو اک پہچان تھی اپنی
یہاں رہ کر تو ہمسائے سے بھی انجان رہتے ہیں
ہر اک ذرہ ہمیں دھرتی کا اپنی جاں سے پیارا ہے
اسے پانے کی خاطر ہم نے سب کچھ اپنا ہارا ہے
خدانخواسطہ اس پر اگر کچھ آنچ آجائے
تو پھر بیکار اس کے نام پر جینا ہمارا ہے
ہمارے قائدِ اعظم نے دلوایا تھا یہ خطہ
کہ ہم نے نام پر اسلام کے پایا تھا یہ خطہ
نہ ہونے دیں گے ہم پامال اس کی شانِ رفتہ کو
بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ میں آیا تھا یہ خطہ
وطن کے ایک اِک چپے کو پھولوں سے سجانا ہے
جو ہم سے دور ہیں ان کو خیالوں میں بلانا ہے
نئی نسلوں کو کر کے آشنا اپنے رواجوں سے
انھیں بھی اپنی تہذیب و ثقافت سے ملانا ہے
جو سچ پوچھو تو سچ یہ ہے وطن ایمان ہوتا ہے
پرائے دیس میں انسان کی پہچان ہوتا ہے
کہ جو پردیس میں رہ کر اسے بدنام کرتا ہے
وہ شخص عذراؔ زمانے میں بڑا نادان ہوتا ہے
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے






