نہیں یہ آج کی حسرت یہ سال کی ہے
رفاقتوں میں تمنا چھپی وصال کی ہے
میں بھول سکتا نہیں خوبرو حسیں چہرہ
کہ بات حسنِ نزاکت ترے جمال کی ہے
خوشی سے کرنے لگا ہوں دھمال اس لیے میں
کمال یار کی قربت لگی کمال کی ہے
سکون سے نہیں سویا بتا رہا ہوں بات
فراق و ہجر میں حسرت رہی وصال کی ہے
چلا گیا ہے بنا پوچھے وہ کسی کے ساتھ
یہ بات ظلم و ستم زنج اور ملال کی ہے
نکال سکتا نہیں زینہارِ دل سے میں
کہ سانس سانس میں خوشبو ترے خیال کی ہے
بنا ہوا ہے زراعت کا مسئلہ شہزاد
وجہ کسی نے بتائی نہیں زوال کی ہے