نہ نیند اور نہ خوابوں سے آنکھ بھرنی ہے
Poet: تہذیب حافی By: Ghani, Gharo
نہ نیند اور نہ خوابوں سے آنکھ بھرنی ہے
کہ اس سے ہم نے تجھے دیکھنے کی کرنی ہے
کسی درخت کی حدت میں دن گزارنا ہے
کسی چراغ کی چھاؤں میں رات کرنی ہے
وہ پھول اور کسی شاخ پر نہیں کھلنا
وہ زلف صرف مرے ہاتھ سے سنورنی ہے
تمام ناخدا ساحل سے دور ہو جائیں
سمندروں سے اکیلے میں بات کرنی ہے
ہمارے گاؤں کا ہر پھول مرنے والا ہے
اب اس گلی سے وہ خوشبو نہیں گزرنی ہے
ترے زیاں پہ میں اپنا زیاں نہ کر بیٹھوں
کہ مجھ مرید کا مرشد اویسؔ قرنی ہے
More Tahzeeb Hafi Poetry
موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں موسموں کے تغیر کو بھانپا نہیں چھتریاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زخم بھرنے سے پہلے کسی نے مری پٹیاں کھول دیں
ہم مچھیروں سے پوچھو سمندر نہیں ہے یہ عفریت ہے
تم نے کیا سوچ کر ساحلوں سے بندھی کشتیاں کھول دیں
اس نے وعدوں کے پربت سے لٹکے ہوؤں کو سہارا دیا
اس کی آواز پر کوہ پیماؤں نے رسیاں کھول دیں
دشت غربت میں میں اور مرا یار شب زاد باہم ملے
یار کے پاس جو کچھ بھی تھا یار نے گٹھڑیاں کھول دیں
کچھ برس تو تری یاد کی ریل دل سے گزرتی رہی
اور پھر میں نے تھک ہار کے ایک دن پٹریاں کھول دیں
اس نے صحراؤں کی سیر کرتے ہوئے اک شجر کے تلے
اپنی آنکھوں سے عینک اتاری کہ دو ہرنیاں کھول دیں
آج ہم کر چکے عہد ترک سخن پر رقم دستخط
آج ہم نے نئے شاعروں کے لیے بھرتیاں کھول دیں
زبیر






