نمک کی روز مالش کر رہے ہیں

Poet: فہمی بدایونی By: فہد, Quetta

نمک کی روز مالش کر رہے ہیں
ہمارے زخم ورزش کر رہے ہیں

سنو لوگوں کو یہ شک ہو گیا ہے
کہ ہم جینے کی سازش کر رہے ہیں

ہماری پیاس کو رانی بنا لیں
کئی دریا یہ کوشش کر رہے ہیں

مرے صحرا سے جو بادل اٹھے تھے
کسی دریا پہ بارش کر رہے ہیں

یہ سب پانی کی خالی بوتلیں ہیں
جنہیں ہم نذر آتش کر رہے ہیں

ابھی چمکے نہیں غالبؔ کے جوتے
ابھی نقاد پالش کر رہے ہیں

تری تصویر، پنکھا، میز، مفلر
مرے کمرے میں گردش کر رہے ہیں

Rate it:
Views: 439
31 Jan, 2022