نفس قیدی یُوں جان سے نکلا
Poet: ابنِ منیب By: ابنِ مُنیب, سویڈننفس قیدی یُوں جان سے نکلا
تِیر جیسے کمان سے نکلا
پھر نہ آیا وہ لوٹ کر صاحب
"جو کوئی اِس مکان سے نکلا"
ہم تھے ایوب تیری محفل میں
اِک نہ شکوہ زبان سے نکلا
کچھ نہ پایا جہان میں باقی
جب میں تیرے دھیان سے نکلا
آ کے بولے وہ قبر پر میری
شکر ہے امتحان سے نکلا!
تُو نہ آیا مگر یقیں تیرا
کب دلِ خوش گمان سے نکلا
ایک تیشے پہ آ مِلے دونوں
کیسا رستہ چٹان سے نکلا
بَیچ کر نفرتیں سرِ منبر
شیخ اپنی دُکان سے نکلا
سنگ، جس پر تھا خون کلیوں کا
آخرش باغبان سے نکلا
جو بھی آیا جہان میں خاکی
خاک ہو خاکدان سے نکلا
چوٹ دَر چوٹ جب پڑے لمحے
ایک بوڑھا جوان سے نکلا
حُسن تیرا کِیا بیاں جب بھی
شعر علمِ بیان سے نکلا
تھک کے لیٹا مُنیبؔ بالآخر
کاروانِ جہان سے نکلا
(واوین میں مصرع میر کا ہے۔ آٹھویں شعر میں اشارہ اُن "شیوخ" کی طرف ہے جو مسجد و منبر کو شدت پسندی اور مسلکی منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ جو اِس سے پاک ہیں وہ ہمارے لئے یقیناََ قابلِ احترام ہیں۔)
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






