میں پاگل ہو چکی ہوں گی
Poet: #Mehik Yousafzai By: #Mehik Yousafzai, Peshawarبہت ہی مدتوں کے بعد کھی تم لوٹ آؤگے
تم سالوں بعد آؤگے ہمارے بستی میں جانا
تمہیں جب یاد نہ آئے کہ میرا گھر کہاں پر تھا
میری چھوٹی سی جھونپڑی کو کبھی نہ ڈھونڈ پاؤگے
محلے میں تم آؤگے کسی بچے سے پوچھوگے
ادھر ایک شاعرہ جو تھی اسی کو ڈھونڈ رہا ہوں میں
کہاں رہتی ہے وہ ناداں اسے میں دیکھنے آیا ہوں
یہ بچہ جو جواب دیگا کچھ اسطرح سے بولے گا
ادھر ایک شاعرہ جو تھی کسی سے پیار کرتی تھی
ابھی تو وہ ہے دیوانی کسی ویران جگہ دیکھو
اسی گرمی کی شدت میں وہاں تم دیکھ پاؤگے
وہاں جب مڑ کے دیکھوگے نظر آؤں گی میں تم کو
تم ایسے بھاگ آؤگے گلے مجھ کو لگاؤگے
مجھے ماتھے پر چھوم کر تم کحبت سے یو دیکھوگے
تمہارے پاس سے اٹھ کر میں تم سے دور جاؤں گی
پکاروگے مجھے تم یوں اے میرے جان دلبرجان
کہاں تم جا رہی ہو اب،مجھے تڑپا رہی ہو اب
ابھی تو جان گیا ہوں میں تیری غزلیں تیرے الفاظ
تم پہے تو نہ ایسی تھی تمہیں کیا ہو گیا ہے اب
تمہیں مڑ کے میں دیکھوں گی ،تمہی سے پوچھ لوں گی میں
آخر تم کون ہو صحب یہاں کیا لینے آئے ہو
ارے مجھ کو تو پھر اس وقت تیری پہچان نہیں ہوگی
میں پاگل ہوچکی ہوں گی۔میں پاگل ہو چکی ہوں گی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے







