میں پاکستان هوں
Poet: فرحین ناز طارق By: Farheen Naz Tariq, Chakwalبھت بیمار هوں
بھت لاچار هوں
نفرتوں میں گھرا هوں
مجھے محبتوں کا تریاق دو
میرا سینه هے چھلنی
میرے پانچوں بیٹے هیں برسر پیکار
مجھے دل و جگر په چل رهی هیں
فرقه واریت کی برچھیاں
آبله پا هوں
زخم و تھکن سے چور هوں
اشک سے تر بتر هیں میرے کھیت کھلیان
میری دھرتی سهانے دنوں کی یادمیں هے ماتم کناں
میرے نونهالوں کےلبوں په هیں سسکیاں
بیگار و مشقت کی شکنوں کا جال هے
انکی پیشانی په رقم
بھوک سے نڈھال هیں وجود میرے بچوں کے
پھر بھی اس آس په هوں زنده
میرے بچے سامراج کی غلامی کی بیڑیاں
اک دن میرے پاؤں سے کاٹ کے پھینک دینگے
کبھی تو اجالا میرے ویرانوں میں چھٹے گا
لال رنگ خون کی هولی مچانے کے بجائے
فقط دلهن کے لباس په دکھے گا
کبھی تو لاٹھی کی بغیر
میں چلنا سیکھوں گا
بس اک اس آسمیں زنده هوں
که
میں بنا تھاقائم رهنے کو
میرے رب ذوالجلال کے نام کا سایه
مجھے تنها نهیں چھوڑے گا
میں زنده تھا میں زنده هوں
اور زنده رهوں گا
میں پنجابی سندھی بلوچی اورپختون نهیں
پاکستان تھا پاکستان هوں اور پاکستان هی رهوں گا
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے






