میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
Poet: ارسلان حُسینؔ By: Arsalan Hussain, Ajmanمیں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میں تم سے سارے عہد نبہاؤں
تو یہ بتاؤ جفا کرو گے؟
بغاوت کر کے ہر ایک سے میں
رسم و رواجوں کو روند ڈالوں
اور اپنا حق بھی تم کو دے دوں
تو اپنا فرض تم آدا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میں قوسِ قزا کو چھو کر آؤ
نہ قدم اپنے زمیں گراؤں
میں اپنا آپ ، خود لُٹاؤں
تم مِرے لیئے جب سجا کرو گے
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
زندگی کی طویل راہ میں
خوشی اور غم کا جو سامنا ہو
تو میرے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر
میرے سنگ سنگ چلا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
آس کی ڈوری بھی ٹُوٹ جائے
اور نا اُمیدی بھی دل جلائے
تو میرے ماتھے کو چوم کر تم
میرے حق میں دعا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
اگر ہو مجھ سے بھُول کوئ
اَنا کی با ضد تلخیوں میں
تو تھام لو گے صبر کا دامن
یہ مجھ سے کوئ گِلا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میرے ہونٹوں کی خاموشی میں
روح کی کنیت کو بھانپ لے نا
میں جب بھی دل سے تمہیں پکاروں
تم آ کر مجھ سے مِلا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
ہجر کی چادر اوڑھ کر جب
حُسینؔ ! تم سے دور جائیں
اور کرب لمحوں کی پیاری یادیں
تمہیں ستائیں تو کیا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
یہ عشق کی رِمزیں ہیں سوچ لینا
بڑا ہی ظلم و ستم سَہو گے
چھُپا کر اپنے سارے غم کو
کیا خوں کے آنسو پیا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
میں جب بتاؤں کے تم کو بے حد
یاد کر کے ہے اشک بہایا
تو اس کے عیوض تم بھی دل سے
محبت مجھ پر فدا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
دیکھا کر تم کو یہ چاند ، تارے
اگر نہ تم کو میں سونپ پاؤں
تو ساتھ نبھاؤ گے میرا پھر بھی
یہ خود کو مجھ سے جدا کرو گے؟
میں خود سے بڑھ کر جو تم کو چاہوں
تو یہ بتاؤ وفا کرو گے؟
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






