میرے سارے سوال باقی ہیں
Poet: ارشد ارشیؔ By: Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachiسب بدلتے نصاب دیکھے ہیں
ہم نے ایسے سراب دیکھے ہیں
پھول سوکھے ہیں جو کتابوں میں
میں نے ان کے عذاب دیکھے ہیں
جن کی تعبیر کچھ نہیں ہوتی
میں نے ایسے ہی خواب دیکھے ہیں
لوگ سچے ہیں جو بھی دنیا میں
ہم نے زیرِ عتاب دیکھے ہیں
جب برستی ہے کھل کے کالی گھٹا
ہم نے صحرا سراب دیکھے ہیں
تم نے پایا ہے جس کو دنیا میں
ہم نے بس اس کے خاب دیکھے ہیں
تم محبت کی مالا جپتے ہو
ہم نے اس کے حساب دیکھے ہیں
عشق کے سارے باب دیکھے ہیں
جی ہاں بالکل جناب دیکھے ہیں
تم کو دیکھا تو یوں لگا مجھ کو
جیسے تازہ گلاب دیکھے ہیں
تو نے اک جھوٹا خاب دیکھا ہے
ہم نے تو بے حساب دیکھے ہیں
تم کیا جانو میری قربانی
ہجرتوں کے عذاب دیکھے ہیں
جانے کب آئیں گے مرے اچھًے
وقت سارے خراب دیکھے ہیں
ہم نے محفل میں بیٹھ کر سارے
چہرے وہ بے نقاب دیکھے ہیں
میرے سارے سوال باقی ہیں
تیرے سارے جواب دیکھے ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






