مسلمانوں سے خطاب
Poet: اَحسَن عَبّاسی By: Ahsan Ali, Betws-Y-Coed, North Wales, UKبچھ رہے ہیں آگے کانٹے تُمہارے
اب تمہاری مٹائ پہچاں جا رہی ہے
تم کو مٹانے کی سازش ہو رہی ہے
اور تم ہو کہ خوابِ غفلت میں پڑے ہو
تم اتنے بے ہس کبھی تو نہیں تھے
یا اتنے مردہ کبھی تو نہیں تھے
کیا اس لیئے ہے کہ فرقہ میں بٹ گئے ہو
یا اس لیئے ہے کہ متحد نہیں ہو
کچھ تو بتاؤ یہ کیوں ہو رہا ہے
کچھ تو سوچو یہ کیوں ہو رہا ہے
کیااس لیئے ہے کہ شہ رگ کٹ گئ ہے
یا اس لیئے ہے کہ دب کوئ نس رہی ہے
کتنی رہتی ہیں قومیں یہاں پر
جومتحد ہمیشہ ہیں رہتیں یہاں پر
ان کے تہواروں پہ جھگڑا ہوتا نہیں ہے
وہ مناتے ہیں ہمیشہ ہر تہوار اک دن
تم عیدیں مناتے ہمیشہ ہو دو دن
کیوں ہوتا ہے ایسا کبھی سوچا ہے تم نے
تم وہ ہو جو سحرا سے اُٹھے تھے
رُکے جاکے جبلالطارق پہ تھےتُم
وہ جواں مرد مسلم وہ طارق کہاں ہیں
جنہوں نے اسپین پہ کی تھی حکومت
وہ اب سمٹ کر کہاں چھپ گئے ہیں
کہاں گئے اب اللہ و اکبر کے نعرے
وہ خوں میں گرمی وہ جوش اب کہاں ہے
جو دکھائ کہیں اب دیتا نہیں ہے
کیا جوش وہ پھر اٹھے گا کبھی بھی
پھر وہ جذبہ لا سکو گے کبھی بھی
یہ تب ہی ہو سکے گا میری سمجھ سے
کہ جب اللہ کے احکام پر تم چلو گے
قرآں کو با معنی جب تُم پڑھو گے
کیا کہتا ہے قُرآں جب تم یہ سمجھو گے
متحد ہوکرپھر ہمیشہ ہی تم رہو گے
مٹ جائینگے یقیناً سب ہمارے یہ جھگڑے
مل جائیں گے وہ سب جو پہلے جدا تھے
تم مسلماں تھے ہمیشہ اور ہمیشہ رہوگے
اے میرے وطن کی مٹی تیرے جانثاروں کو سلام
خاک و خون میں لپٹے ہوئے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے شہیدوں کو سلام
یہ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہے تا قیامت با خدا
فضائوں کے محفظ سمندر کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروشان وطن
تمہارے گھر کے آنگن کو اور تمہاری ماؤں کو سلام
ہمیں کمزور نا سمجھنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاہنے والے ہیں ہم اور اللہ کے نام سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاوں گا کبھی میں فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
خاک و خوں میں لپٹے ہوے تیرے بچوں کو سلام
یقین ہے تیرے سپوتوں پر اس پرچم و ہلال کو میرے
خاکی وردی میں ملبوس تیرے ان شہیدوں کو سلام
یہ سبز حلالی پرچم لہراتا رہے گا تا قیامت باخدا
فضاؤں کے مہافظ سمندروں کے رکھوالوں کو سلام
یہ بے لوث سپاہی یہ نڈر سرفروش وطن
تیرے گھر کے آنگن کو اور تیری مآؤں کو سلام
ھمیں کمزور نہ سمھجنا اے دشمنان وطن
نبی کے چاھنے والے ہیں ھم الله کے نام کو سلام
خاک میں پوشیدہ ہو جاؤں گا کبھی اے فیاض
رہے نام پاکستان اور پاکستانیوں کو سلام
تجھ سے سپر، کوئی نہیں
اقبال نگیں ہے، تیرا مکیں
تجھ پر سایۂ عرشِ بریں
تو ہی نغمۂ حق، تو ہی مرا دین
تو سرزمینِ عشق، تو حق الیقین
اے مہرِ زمیں! اے نصرِ مبیں
"إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا"
نہ لبھا سکے جسے، زلفِ حسیں
ایسے سپاہی! ہم مردِ صحرائی
اے ابنِ قاسم! تجھ کو قسم
رکھنا بھرم، شانِ جبیں
ہے فخر اپنا: بابر، غوری اور شاہین
توڑیں گے ترا زعم، اے عدوِ مبین
اے خدا! کر عطا، صبر و یقین
قائم رہے نظامِ نورِ مبین
مسلمانوں کی مسلمانی سے عاری ہے قدس کی بیٹی
اسرائیل کی کتے بھاگتے ہیں ہاتھ میں پتھر دیکھ کر
جیسے کہ اسلحے سے لیس کوئی شکاری ہے قدس کی بیٹی
وہ جانتی ہے نہ ایوبی نہ قاسم نہ طارق آئے گا کوئی
نہیں اب کسی مجاہد کی انتظاری ہے قدس کی بیٹی
دیکھ لو عاؔمر کہ لرزاں ہے اب یزید وقت
مثل زینبؓ جم کہ کھڑی ہے ہماری قدس کی بیٹی
کبھی اک لمحے کو سوچو
جس انقلاب کی خاطر
سر پہ باندھ کر کفنی
گھروں سے تم جو نکلے ہو
اُس انقلاب کا عنصر
کوئی سا اک بھی تم میں ہے؟
بازار لوٹ کے اپنے
دکانوں کو جلا دینا
ریاست کے ستونوں کو
بِنا سوچے گرا دینا
تباہی ہی تباہی ہے
خرابی ہی خرابی ہے
نہیں کچھ انقلابی ہے
نہیں یہ انقلابی ہے
سیاسی بُت کی چاہت میں
ریاست سے کیوں لڑتے ہو؟
فقط کم عقلی ہے یہ تو
جو آپس میں جھگڑتے ہو
گر انقلاب لانا ہے
تو پہلے خود میں ڈھونڈو تم
تمہارے بُت کے اندر ہی
جو شخص اک سانس لیتا ہے
کیا وہ سچ میں زندہ ہے؟
وہ اپنے قولوں، عملوں پر
راضی یا شرمندہ ہے؟
بِنا اصلاح کے اپنی
انقلاب آیا نہیں کرتے
انقلاب دل سے اُٹھتا ہے
اِسے لایا نہیں کرتے






