جو آدابِ الفت سے اقرار کر کے
مرے پیار کا وہ ہی اظہار کرکے
محبت بھی مجھ سے وہ مانگیں ضروری
ملا کیا ہمیں عشق بیزار کر کے
جنہیں میں نے مشکل سے رخصت کیا ہے
وہی خواب دل میں تو دیدار کر کے
نگاہوں میں بس جائے گی زندگی پھر
دلوں سے محبت کا بیوپار کر کے
مرا آئینہ بن کے چاہت میں اپنے
مجھے ہی محبت سے سرشار کر کے
لگا کر رقیبوں سے وہ دوستی ہے
مرے دشمنوں کا یہ دیدار کر کے
وہ وشمہ مرے ساتھ چلتے ہوئے ہے
مرے بھی دکھو کو وہ بیدار کر کے