مرے دل سے محبت کی فراوانی نہیں جاتی
میں اکثر سوچتا ہوں کیوں یہ نادانی نہیں جاتی
یہ حالت ہو گئی ہے شدت خطرات پیہم سے
کہ اچھے آدمی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
گھروں کی رونقیں کلکاریاں بچوں کی ہوتی ہیں
کھلونوں کو سجا کر گھر کی ویرانی نہیں جاتی
نہ رسم و راہ ہے ان سے نہ باقی واسطہ کوئی
مگر پلکیں جو کرتی ہیں نگہبانی نہیں جاتی
بزرگوں سے سنا ہے ماں کے قدموں میں ہی جنت ہے
کہ خالی برکتوں سے ماں کی قربانی نہیں جاتی