مجھ سے سیکھو
Poet: قدسیہ انعام By: قدسیہ انعام, Lahoreخمار بن کر ذہن کسی کے سوار رہنا ہے مجھ سے سیکھو
خزاں کی رت میں ہنسی سجائےبہاررہنا ہے مجھ سے سیکھو
میں خوش دلی سےہی سونپ دوں گی سوال کرکےکبھی تو دیکھو
بجز جمع اور نفی کے اپنی، شمار رہنا ہے مجھ سے سیکھو
امانتوں کو لٹاتے لمحے نظر جھکانا کہاں سے سیکھا؟
نطرسےنظریں ملاکےدل پرسواررہنا ہے مجھ سے سیکھو
یہ دن کےڈھلنےکی آس کیسی؟ کیوں روشنی سےچھپےہو پھرتے؟
بھری دوپہروں میں تم کو لیل و نہار رہنا ہے مجھ سے سیکھو
خوشی تلاشو کسی میں اپنی غموں کو ڈھونڈو کہیں بھٹکتے
اکیلے جینا ، اکیلے ہنسنا، سوگوار رہنا ہے مجھ سے سیکھو
کہاں ہے منزل کہاں ہے رستہ بھٹک گئے تو فکر ہی کیسی
قرار پا کربھی بے کل و بے قرار رہنا ہے مجھ سے سیکھو
یہ جو نصیحت میں کر رہی ہوں ذرا سا اس پر دھیان دے لو
سجا کےسوچوں کی رہگزرکواجاڑ رہنا ہے مجھ سے سیکھو
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






