خواب پلکوں پہ سجا لیتی ہیں چپکے چپکے
رنگ پھولوں سے چرا لیتی ہیں چپکے چپکے
آنے والے حسین وقت کی آسیں لے کر
دل پہ پہرے سے بٹھا لیتی ہیں چپکے چپکے
بیٹھے بیٹھے کبھی خود سے بھی الجھ جاتی ہیں
دیپ یادوں کے جلا لیتی ہیں چپکے چپکے
سارا دن چہرے پہ مسکان سجا رکھتی ہیں
شب گئے اشک بہا لیتی ہیں چپکے چپکے
جب کبھی نارسائی حد سے گزر جاتی ہے
خود کو آئینہ بنا لیتی ہیں چپکے چپکے
سہتی جاتی ہیں ان کہی کہانیوں سے دکھ
روح پہ برف گرا لیتی ہیں چپکے چپکے
کسی کے پیار کی جنت نظیر دنیا میں
اپنی ہستی کو مٹا لیتی ہیں چپکے چپکے
گماں کی دلنشیں وادی میں سفر کرتے ہوئے
کونپلیں دل میں کھلا لیتی ہیں چپکے چپکے
در خیال سے چن چن کے وفا کے موتی
اپنے دامن میں سجا لیتی ہیں چپکے چپکے
ڈائری میں کسی کے نام کی لکھ کر نظمیں
تتلیوں کو ہی سنا لیتی ہیں چپکے چپکے