کیا خوب ستم کرتے ہو، احسان بھی رکھتے ہو
خنجر بھی اٹھاتے ہو، قرآن بھی رکھتے ہو
جس بزم میں بیٹھے ہو، وہ آتش کدہ لگتی
اور کہتے ہو ہم خاک نشاں جان بھی رکھتے ہو
ظاہر میں ہو لب خندہ، باطن میں ہو صیادہ
اک مسکاں دکھاتے ہو، طوفان بھی رکھتے ہو
ہم جیسے گدا کو تم، پندار کا درس دو گے؟
واں تخت سجاتے ہو، زندان بھی رکھتے ہو
دم ساز تمھارا کون؟ ہر درد پہ پردہ ہے
دل میں جو خراشیں ہیں، انبان بھی رکھتے ہو
ہاں قتل کرو لیکن یہ دعویٰ نہ کرو ہرگز
کہ تم ہاتھ بھی دھو بیٹھے، ارمان بھی رکھتے ہو
روخشان کو گوارا ہے رسوائی کی بارش بھی
تم جلوہ بھی دکھلاؤ، طوفاں بھی رکھتے ہو